عوام کے حالات، تبلیغی احباب کے بزعمِ خود دیندار بن جانے کے بعد قبل از وقت مصلح بن جانے کے شواہد، قابل و فاضل طلباء کی علوم پر یک گونہ دسترس کے باوجود خدا و رسول اور منہجِ اسلاف سے دوری کے حالات؛ غرض ہر شعبہ کی ہر طرح ابتری خصوصا ایسے افراد جو تقریر و تحریر پر قابل ہوں؛ لیکن ابھی نورِ قلب سے کچھ حصہ لیے ہوئے نہ ہوں؛ ان سب کی اعلی درجہ کی اگر کوئی خیر خواہی کرنا چاہے، ان پر اعلی درجہ کا رحم کرنا چاہے، ان پر اعلی درجہ کا احسان کرنا چاہے؛ تو انہیں "علمائے ربانیین" ___جن کی تعریف یہ ہے کہ وہ راسخ فی العلم، تہذیبِ اخلاق سے آراستہ اور عارف باللہ ہوں___ سے جوڑ دے۔ ان کی صحبت میں انہیں جانے کی ترغیب دے۔ گاہے گاہے طلب کے ساتھ ان خاصانِ حق کی عظمت و احترام سے ملاقات کروائے۔ ان نفوسِ قدسیہ کی صحبت ہی سے قلب میں ایمان جاگزیں ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے "کونوا مع الصادقین" سچوں کے ساتھ رہو۔ ایسے کے ساتھ رہو، جن کے قول و عمل میں مطابقت ہو۔ جن کا علم قلب پر اثر انداز ہوگیا ہو۔ اسی لیے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے "مآثرِ حکیم الامت" میں لکھا ہے کہ "میں فتویٰ دیتا ہوں کہ اس زمانہ میں اہلِ اللہ کی صحبت فرضِ عین ہے۔" لیکن پتہ نہیں کیوں ہمیں اس کا بالکل احساس ہی نہیں۔ ہم اسے بہت اچھی، بہترین چیز تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے ضروری ہونے کا خیال نہیں کرتے۔ پیشانی پر نماز کی نشانی تو آجاتی ہے، لیکن دل حسد و کینہ سے خالی نہیں ہوتا۔ خیر کی کنجی اور شر کا تالا ہم نہین بن پاتے۔ اور اسی وجہ سے دوام کے ساتھ علم و عمل کی اعتدال والی راہ پر ہمارے لیے چلنا بہت ہی دشوار ہوتا جارہا ہے۔
محمد سوید
0 تبصرے