65a854e0fbfe1600199c5c82

نمازِ تراویح: نیت، قرأت اور ختمِ قرآن

 


اِصلاحِ_اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح 

سلسلہ نمبر 216:


DOWNLOAD LINK 

🌻 نمازِ تراویح: نیت، قرأت اور ختمِ قرآن

▪ سلسلہ احکامِ تراویح: 2️⃣

📿 تراویح کے لیے نیت کا حکم:

تراویح کی نماز کے لیے نیت کرنا فرض ہے، نیت کے بغیر تراویح درست نہیں ہوتی، البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نیت درحقیقت دل کے ارادے اور عزم کا نام ہے، اس لیے دل میں نیت کرلینا کافی ہے، زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ اگر کوئی شخص زبان سے بھی نیت کرلے تب بھی درست ہے، اس صورت میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں دو رکعات تراویح کی نماز ادا کرتا ہوں۔ اور اگر امام کی اقتدا میں ہو تو یوں نیت کرے کہ میں امام کے پیچھے دو رکعات تراویح کی نماز ادا کرتا ہوں۔ (بدائع الصنائع، رد المحتار)


🌼 تراویح میں قرآن کریم کی قرأت وغیرہ کے احکام:


📿 تراویح میں ثنا، اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کا حکم:

تراویح کی پہلی رکعت میں سورتِ فاتحہ سے پہلے ثنا، پھرتعوذ اور پھر بسم اللہ پڑھنا سنت ہے جبکہ دوسری رکعت میں سورتِ فاتحہ سے پہلے صرف ‘‘بسم اللہ’’ پڑھنا سنت ہے، البتہ مقتدی کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ پہلی رکعت میں امام کی قرأت سے پہلے صرف ثنا پڑھے گا، جبکہ دوسری رکعت میں کچھ بھی نہیں پڑھے گا۔ (رد المحتار)


📿 تراویح کے ختمِ قرآن میں بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے کا حکم:

امام کے لیےتراویح پڑھاتے ہوئے پورے قرآن کریم میں صرف ایک بار کسی بھی سورت کے شروع میں بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ بھی قرآن کریم کی ایک آیت ہے، کیوں کہ اگر امام نے ایک بار بھی بلند آواز سے بسم اللہ نہیں پڑھی تو مقتدی حضرات کے ختمِ قرآن میں ایک آیت کی کمی رہ جائے گی، البتہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کا حکم نہیں، نہ بلند آواز سے اور نہ آہستہ آواز سے، البتہ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو وہ آواز سے نہ پڑھے بلکہ آہستہ پڑھ لیاکرے۔ (رد المحتار، فتاویٰ محمودیہ)


📿 باجماعت نماز میں بلند آواز سے قرأت کرنے کا حکم:

باجماعت تراویح میں امام کے لیے جہراً یعنی بآوازِ بلند قرأت کرنا واجب ہے۔ (رد المحتار) 


📿 سورتِ فاتحہ کے بعد سورت ملانے کی کم از کم مقدار:

سورة الفاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے جس کی کم از کم مقدار تین چھوٹی آیات یا اتنی ہی مقدار میں ایک یا دو آیات ہے، اہلِ علم نے تین چھوٹی آیات کی مقدار تیس حروف بیان فرمائی ہے، اس سے کم تلاوت کرنے سے واجب ادا نہیں ہوتا، اس لیے چاہے ایک آیت پڑھی جائے یا دو؛ ان کی مقدار تیس حروف کے برابر ہونا ضروری ہے، اگر کسی نے بھول کر اس سے کم پڑھا تو سجدہ سہو سے نماز ادا ہوجائے گی لیکن اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، رد المحتار)


📿 تراویح میں تلاوت کی کیفیت اور طریقہ کار:

فرض نماز میں تو دھیمی رفتار ہی سے تلاوت کرنا بہتر ہے، جبکہ تراویح میں درمیانی رفتار سے پڑھنا مناسب ہے، البتہ کچھ تیز پڑھنا بھی جائز ہے، لیکن بہرصورت یہ لحاظ رہے کہ قرآن کریم تجوید کے موافق ہی تلاوت کیا جائے، اس لیے اس قدر تیز رفتاری سے پڑھنا کہ تجوید کے ضروری امور متاثر ہوں، قرآن کریم سمجھ نہ آئے، یا حروف وحرکات کٹتے چلے جائیں یا واضح نہ ہوں اور مقتدی حضرات کو ‘‘یعلمون تعلمون’’ کے سوا کچھ سمجھ نہ آئے؛یہ سب صورتیں ممنوع ہیں، ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ مقصد تو اللہ ہی کی رضا حاصل کرنی ہے، اور اللہ کی رضا اسی میں ہے کہ اخلاص کے ساتھ تجوید کے موافق قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔

(تفسیر مدارک سورۃ المزمل، در مختار، تراویح کے فضائل واحکام)


🌼 تراویح میں ختمِ قرآن کے احکام:


📿 تراویح میں ختمِ قرآن کی شرعی حیثیت:

تراویح میں کم از کم ایک بار قرآن کریم ختم کرنا سنت ہے، ایک سے زائد بار جتنی مرتبہ ختمِ قرآن کی توفیق ہوجائے تو بڑی فضیلت کی بات ہے۔(الاختیار، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، رد المحتار، فتاویٰ محمودیہ، فتاویٰ قاضی خان)


📿 ختمِ قرآن کے بعد سورتِ بقرہ کی ابتدائی آیات پڑھنے کا حکم:

 تراویح میں قرآن کریم ختم ہوجانے کے بعد دوبارہ سے شروع کرکے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات پڑھنا درست ہے اور یہ متعدد حضرات اکابر اہل علم کا معمول بھی رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ایسا عمل ہے کہ ایک بار قرآن ختم ہوجانے کے بعد دوبارہ شروع کرنا چاہیے کیوں کہ اس کی تلاوت سدا جاری رہنی چاہیے، گویا اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ہم نے قرآن کریم ختم کرکے دوبارہ شروع کرلیا ہے اور یہی قرآن کی عظمت کا تقاضا ہے، البتہ اس کو ضروری قرار دینا درست نہیں، اگر کوئی شخص یہ ابتدائی آیات نہ پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسا شخص ہرگز قابلِ ملامت نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ)


📿 تراویح کے ختمِ قرآن میں کوئی آیت چھوٹ جانے کا حکم:

تراویح میں ختمِ قرآن کے دوران اگر کوئی آیت چُھوٹ جائے تو اسے بعد کی کسی تراویح میں پڑھ لی جائے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے یہ چھوٹ جانے والی آیت پڑھی جائے پھر معمول کے مطابق تلاوت جاری رکھی جائے، لیکن اگر ختمِ قرآن ہوجانے کے بعد یاد آجائے تو ایسی صورت میں ختمِ قرآن کے بعد کسی بھی تراویح میں وہ آیت پڑھ لی جائے، اس طرح بھی ختم مکمل شمار ہوگا ان شاء اللہ۔


📿 ختمِ قرآن کے موقع پر پانی وغیرہ پر دم کرنے کا حکم:

ختمِ قرآن کے موقع پر پانی وغیرہ پر دم کرنا جائز ہے، البتہ اس کو ضروری نہ سمجھا جائے، اورمسجد کے آداب کا بھی خیال رکھا جائے۔


📿 ختمِ قرآن کے موقع پر دعاؤں کی قبولیت:

ختمِ قرآن کے موقع پر دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس لیے دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔  

(المعجم الکبیر حدیث: 647)


📿 ختمِ قرآن کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنے کا حکم:

ختمِ قرآن کے موقع پر دلی خوشی کے ساتھ شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے مٹھائی تقسیم کرنا جائز ہے، البتہ اس کو سنت یا ضروری نہ سمجھا جائے، اس کے لیے زبردستی چندہ نہ کیا جائے، اور مسجد کے آداب کا خصوصی خیال رکھا جائے، بصورتِ دیگر اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔


📿 فاسد ہونے والی رکعات کی تلاوت کا مسئلہ:

تراویح کی جو رکعات فاسد ہوجائیں تو اس میں پڑھا گیا قرآن دوبارہ دہرایا جائے گا۔

(فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ محمودیہ)


📿 تراویح میں رکوع کا انتظار کرنے کا حکم:

ایک شخص جماعت کے وقت بیٹھا رہتا ہے اور جب امام رکوع میں جانے لگتا ہے تو وہ جلدی سے نماز میں شامل ہوجاتاہے تو واضح رہے کہ اس کا یہ عمل مکروہ ہے اور ایسا شخص ختمِ قرآن کی دولت سے محروم ہے، کیوں کہ تراویح میں قرآن کریم ختم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کریم کو تراویح ہی میں پڑھا یا سُنا جائے، اس لیےایسے شخص کا یہ طرزِ عمل انتہائی نامناسب ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو عذر ہو تو وہ بیٹھ کر تراویح پڑھ لے تاکہ ختمِ قرآن کی سنت اور ثواب سے محرومی نہ ہو۔ اور ویسے تو تراویح بلا عذر بھی بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن اس سے آدھا ثواب ملتا ہے۔ (الحلبی الکبیر، فتاویٰ محمودیہ)


✍🏻 : مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

25 شعبان المعظم1441ھ/ 19 اپریل 2020


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے