65a854e0fbfe1600199c5c82

ڈاکٹر مزمل صاحب کے تراویح کے متعلق تاثرات

 


ڈاکٹر مزمل صاحب کے تراویح کے متعلق تاثرات


نماز اور کلام اللہ شریف کی جتنی بے حرمتی پورے سال میں نہیں  ہوتی ہے،  شاید اس سے زیادہ ہمارے علاقوں میں تراویح میں ہوتی ہے، اور جتنی تراویح میں بھی نہیں ہوتی،  شاید اس سے زیادہ الم تر کیف والی تراویح میں ہوتی ہے۔ 


رموز اوقاف اور ترتیل کو تو کیا کہیے حروف بھی معاذ اللہ جنگ سے لوٹنے والے سپاہیوں کی طرح ہوتے ہیں جن کے اکثر اعضا کٹے پھٹے ہوتے ہیں، جو دوڑ دوڑ کر اور لڑ لڑ کر تھک گئےہوتے ہیں۔


اگر حافظ صاحب کو اپنے سامنے بٹھا کر ان سے کہا جائے کہ 

دس مرتبہ   ثنا 

دس مرتبہ تعوذ 

دس مرتبہ تسمیہ 

بیس مرتبہ سورہ فاتحہ 

ساٹھ مرتبہ سبحان ربی العظیم 

بیس مرتبہ سمع اللہ لمن حمدہ 

ایک سو بیس مرتبہ سبحان ربی الاعلیٰ 

اسی  مرتبہ اللہ اکبر 

دس مرتبہ التحیات 

دس مرتبہ درود ابراہیمی 

دس مرتبہ دعاء ماثورہ 

اور بیس مرتبہ السلام علیکم ورحمۃ الله 

پڑھ کر دکھائیں 

تو یقیناﹰ  ان کو اس سے زیادہ وقت لگے گا جتنا ان کو بیس رکعات  تراویح پڑھانے میں لگتا ہے۔


مقتدی کی ثنا ابھی شروع ہوئی ہی ہوتی ہے کہ امام صاحب سورہ فاتحہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ 

اور مقتدی ہانپتا کانپتا ابھی پہلے درود تک آتا ہے کہ امام صاحب التحیات،  درود،  دعا وغیرہ سب سے فارغ ہو کر سلام پھیر دیتے ہیں۔


میں حیرت میں ہوں کہ بوڑھے لوگ جن کے جوڑ اٹھتے بیٹھتے آواز کرتے ہیں اور دُکھتے بھی ہیں کیسے اس تیز رفتار نماز کا ساتھ دیتے ہیں۔


بیس رکعات میں شاید ہی ایک مرتبہ بھی خیال آتا ہو کہ ہم  باری تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور بندگی کے اظہار کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔


جس پھرتی اور تیزی سے الم تر کیف والی تراویح کے امام صاحب تراویح پڑھاتے ہیں اگر وہی پھرتی 

درزی کپڑے کاٹنے میں،  

حجام بال کاٹنے میں 

اور سرجن آپریشن کرنے میں دکھائے 

تو ہم ایسے درزی، حجام یا سرجن کے پاس کبھی نہ جائیں۔ 

اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، لرزنے اور کانپنے کا مقام ہے۔


حدیث  شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ حالات ایسے بھی ہوتے ہیں جن  میں نماز بد دعا دیتی ہے کہ جیسا تُو نے مجھے برباد کیا اللہ تعالیٰ تجھے برباد کرے۔ تو کیا عجب ہے کہ ایسی تراویح پڑھنے والوں کو بھی نماز بد دعا دیتی ہو۔    


ایک دو مسجد کا نہیں، اکثر مساجد جہاں الم تر کیف والی تراویح ہوتی ہے، وہاں اس کے قریب قریب حالات رہتے  ہیں۔

اگر سب مساجد میں یکساں طور پر ۲۷ یا ۲۹  شب میں کلام پاک مکمل ہونے لگے تو نہ ۵۔۱۰۔۱۵ شب میں قرآنِ پاک مکمل کرنے کی ضرورت رہے اور نہ الم تر کیف سے تراویح پڑھنی پڑے۔


مسافر کو بھی وہی مل جائے،  جو اس کا  چھوٹ گیا ہے ۔ 

کاش کوئی مقرر اپنی تقاریر میں اس فکر کو بھی جگہ دے ۔  


اللہ تعالیٰ مجھے اس تلخ نوائی،گستاخی اور بے ادبی کے لیے معاف فرمائے۔اور ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین اللھم آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے