65a854e0fbfe1600199c5c82

تراویح اور امامت کے ضروری مسائل



 🌻حفاظ اور ائمہ کے لیے مفید ہدایات اور تراویح و امامت کے ضروری مسائل


افادات: حضرت مفتی اقبال احمد صاحب قاسمی مد ظلہم


بہ موقع "حفاظ کرام کے لیے ایک روزہ تربیتی پروگرام" مقام: جامعہ فاروقیہ بشیر العلوم کونچ روڈ اورئی، ضلع جالون یوپی 18 شعبان 1444ھ بہ روز ہفتہ


◾ تمہید

رمضان المبارک کی آمد ہے اور اس ماہ کی برکت سے ہم بہت سی خیر اور نیکیوں کے قریب ہو جاتے ہیں، یہ مجلس بھی رمضان المبارک کی برکت ہے کہ اسی کے تعلق سے منعقد کی گئی ہے۔

رمضان المبارک میں حفاظ کو تراویح سنانا ہوتا ہے، جو حفاظ تراویح سناتے ہیں، امامت کے لیے ان کو آگے کیا جاتا ہے، بعض سال بھر امامت کرتے ہیں، اس لیے امامت اور اس تعلق سے مسائل کا علم ہونا بہت ضروری ہے، لیکن حفاظ ائمہ کی اکثریت ضروری مسائل سے بھی ناواقف ہے؛ ظاہر ہے انہوں نے قرآن کے الفاظ یاد کیے، مسائل کا علم تو نہیں سیکھا، لیکن لوگ امام سے مسئلہ معلوم کرتے ہیں اور اور امام بھی خواہ صرف حافظ ہوں جواب میں کچھ نہ کچھ بتا دیتے ہیں چاہے صحیح ہو یا غلط، ظاہر ہے یہ طریقہ غلط ہے۔

 

اس موقع پر یہ بات آئی کہ ان کے لیے چند ماہ کا کورس ہو جس میں ضروری مسائل اور دین کی بنیادی تعلیمات سکھلائی جائیں، کم از کم ایک پروگرام ان کے لیے ہو جائے جس میں بنیادی مسائل امامت وغیرہ کے بتلا دیے جائیں۔


◾مسائل جاننے کی اہمیت:

دینی مسائل کا علم ہونا بہت ضروری ہے، مسائل کے نہ جاننے کی وجہ سے نماز خراب ہو جاتی ہے، اگر امام ہے تو اس کی نماز کے ساتھ سارے مقتدیوں کی نماز بھی خراب ہوگی۔


لطیفہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ سہارنپور سے رائپور شیخ عبد القادر رائپوری رحمہ اللہ کے پاس جا رہے تھے، راستے میں ایک مسجد میں نماز پڑھی، امام نے نماز کے آخر میں سجدہ سہو کیا، مگر سجدہ سہو کی کوئی وجہ بظاہر معلوم نہ ہوئی، جب امام صاحب سے معلوم کیا کہ آپ نے سجدہ سہو کیا ہے تو نماز میں کیا سہو ہوا تھا تو امام صاحب نے جواب دیا کہ ہلکی سی ریح خارج ہوئی تھی۔

بتائیں اتنا موٹا مسئلہ ہے جو سب کو معلوم ہوگا کہ ریح خارج ہونے سے تو وضو ٹوٹتا ہے، مگر ان کو اتنا بھی معلوم نہ تھا!!!



🌻 اکثروں کو -خدا کرے کہ یہ گمان غلط نکلے- اذان اقامت کا مسنون طریقہ معلوم نہیں، مخارج کی بات نہیں وہ تو آتے ہیں مگر اس کا مسنون طریقہ معلوم نہیں۔


وضو میں ہاتھوں کو کس طرف سے دھونا ہے معلوم نہیں،

انگلیوں کی طرف سے دھونا سنت ہے کہ تین بار دھویا جائے ہر بار انگلیوں سے شروع کیا جائے مگر کون اس پر عمل کرتا ہے؟!

جتنا وضو اچھا ہوگا اتنی ہی نماز اچھی ہوگی۔


وضو کے درمیان کی دعا یاد نہیں، اگر یاد ہے تو عمل نہیں، یہ غفلت ہے۔ وضو کے شروع اور آخر کی دعا یاد نہیں، یاد ہے تو عمل نہیں، بچوں کو یاد کرائی جاتی ہیں مگر وہ عمل نہیں کرتے۔

اگر امام ہی سنتوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو مقتدی کیا خیال رکھیں گے۔


کیوں کہ عمل کا تعلق صرف یاد سے نہیں بلکہ دل کے بننے بگڑنے سے ہے

اسی لیے حافظ ہیں مگر تلاوت سے محروم ہیں، سینے میں قرآن ہے مگر تلاوت کی توفیق نہیں کیوں کہ دل نہیں بنا ہے


تو ہمیں اذان اقامت وضو وغیرہ ان سب چیزوں کی ٹریننگ لینی چاہیے۔


🌻 اقامت کا مسنون طریقہ:

اقامت میں شروع کے چار کلمات ایک ساتھ کہنا ہے بغیر سانس توڑے سکتے کے ساتھ، اور وصل نہیں کرنا ہے، اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر (راء کو ساکن کرنا ہے سکتہ کرنا ہے مگر سانس نہیں توڑنا)

اس کے بعد دو دو کلمات ایک ساتھ کہنا ہے، سانس نہیں توڑنا ہے مگر وصل بھی نہیں کرنا ہے (یعنی آخری حرف پر حرکت نہیں لگانا ہے۔حی علی الصلاۃِ نہیں بلکہ ہ بنا کر بغیر سانس توڑے۔

 پھر قد قامت الصلاۃ میں سانس بھی توڑنا ہے

 

پھر آخر کے دو کلمے ایک ساتھ ایک سانس میں کہنا ہے۔


یہ معمولی چیز ہے مگر عمل نہیں۔


🌺 اب چوں کہ ہم امام ہیں امامت کی ذمہ داری ہے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اندر امامت کی اہلیت ہو امام کے اوصاف ہوں جیسا کہ ابھی بیان ہوا (اس بیان کو پڑھنے کے لیے اس عنوان امامت کی اہمیت اور امام کے اوصاف پر کلک کیجیے)

اپنے آپ کو اچھے اوصاف سے متصف کریں، امامت کی لاج رکھنا ہے۔

 بعض وہ کام جو دوسروں کے لیے جائز ہوتے ہیں مگر اولیٰ نہیں ہوتے، ہمیں ان سے بھی بچنا ہے تاکہ لوگ اس کی وجہ سے ناجائز تک نہ پہنچیں۔


ایک امام صاحب کا واقعہ ہے کہ انہوں نے وضو میں صرف فرائض پر عمل کیا، عالم تھے صرف فرائض پر عمل کر لیتے تھے کہ فرائض پورے ہونے سے وضو ہو جائے گا، ان کے بارے میں استفتاء آگیا کہ ایسا امام کیسا ہے اس کو رکھنا چاہیے؟

تو کتابوں میں ہے کہ امام کو متبع سنت ہونا چاہیے، امام فاسق بدعتی بدعمل نہ ہو، مستقل سنت چھوڑے تو اس کو تنبیہ کی جائے گی، تنبیہ کے باوجود سنت چھوڑنے کی عادت بنا لے تو کسی متبع سنت امام کو تلاش کرنا چاہیے۔


👈 امام کی بڑی ذمہ داری ہے

آپ کے وضو نماز کو لوگ دیکھتے ہیں کہ کیسا عمل کر رہے ہیں، نماز کے اوقات کے علاوہ آپ کہاں وقت لگا رہے لوگ دیکھتے ہیں، کتنا وقت گپ شپ میں لگا رہے کتنا موبائل میں

اور دعا کتنی مانگ رہے ہیں وغیرہ 

ہمیں لوگوں کے لیے عمل نہیں کرنا ہے، اللہ کے لیے کرنا ہے

ہماری بد عملی سے لوگوں پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


🌻 بنیادی مسائل:

نماز میں نیت کا مسئلہ پہلے آتا ہے

تراویح میں نیت کیا ہو، امام ہو تو کیا نیت ہو مقتدی ہو تو کیا ہو


◾ نیت کی حقیقت:

نیت زبان سے الفاظ کا نام نہیں کہ میں نیت کرتا ہوں چار رکعت نماز ظہر....

دل کی نیت کافی ہے حتی کہ اگر دل میں ظہر کی نیت تھی زبان سے عصر کہ دیا تو ظہر مانی جائے گی کیوں کہ دل کے ارادے کا اعتبار ہے۔


روزے میں بھی الفاظ سے نیت ضروری نہیں، ’’بِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ  لِلّٰهِ تَعَالىٰ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ‘ آپ نہ بھی کہیں دل میں روزے کی نیت ہے تب بھی روزہ ہو جائے گا، سحری کھائی ہی اسی لیے ہے کہ روزہ رکھنا ہے۔

(البتہ اگر سحری کھاتے ہوئے نیت ہے کہ صبح روزہ نہ رکھوں گا تو پھر یہ سحری روزے کی نیت کی جگہ نہیں لے گی۔ناقل)


زکوٰۃ میں نیت الفاظ سے کوئی نہیں کہتا حالاں کہ وہاں بھی نیت شرط ہے

زکوٰۃ کا مال الگ کر رہے ہوں تو اس وقت زکوٰۃ کی نیت ہو یا جب زکوٰۃ حوالے کر رہے ہو اس وقت زکوٰۃ کی نیت ہو، ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔

ہر عبادت میں نیت شرط ہے، نیت دل کے ارادہ کا نام ہے۔


مگر علماء نے لکھا ہے کہ لوگ کاروبار وغیرہ میں اتنا مشغول ہیں کہ، دل میں نیت کا استحضار نہیں ہوتا دل کی نیت کا پتہ نہیں ہوتا،تو نیت کے استحضار کے لیے زبان سے کہ لینا چاہیے۔


نیت کا مقصد:

نیت عادت اور عبادت میں فرق کے لیے ہے

صبح سے شام تک کوئی شخص کچھ نہ کھائے روزے کی طرح رہے مگر روزے کی نیت نہ ہو تو روزہ نہ ہوگا، 

بھوکا رہنا عادتا بھی ہوتا ہے عبادتا بھی ہوتا ہے۔


نیز نیت کا مقصد عبادت اور عبادت میں فرق کرنا ہے

نماز ایک عبادت ہے مگر عبادت ظہر کی ادا کرنی ہے یا مغرب کی؟ نیت سے فرق ہوگا۔


🌻 منفرد کی نیت:

اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں تو اتنی نیت کافی ہے کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہوں کس وقت کی فرض یا نفل

مثلاً ظہر کی فرض نماز پڑھ رہا ہوں،

اگر نماز کی نیت کر لی مگر یہ نیت نہ کی کہ ظہر کی فرض ہے یا مثلاً کسی اور وقت کی نماز ہے تو وہ نماز نفل بن جائے گی، کس وقت کی نماز ہے اور فرض ہے یا واجب یہ نیت کرنا ضروری ہے۔


عام نفل کے لیے نفل کی نیت ضروری نہیں۔


فرض اور واجب کے لیے تمیز ضروری ہے اس لیے اس میں نیت کرنا ضروری ہے۔


🌻 مقتدی کی نیت:

اگر مقتدی ہو تو یہ بھی نیت ضروری ہے کہ اِس امام کی اقتدا میں پڑھ رہا ہوں/ اس امام کے پیچھے پڑھ رہا ہوں/ اتباع میں پڑھ رہا ہوں

کیوں کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کو شامل ہوتی ہے، اگر مقتدی کو سہو ہوا تو اسے سجدہ سہو نہیں کرنا پڑے گا، امام کو سہو ہوا تو امام کے ساتھ مقتدی بھی سجدہ سہو کرے گا، کیوں کہ مقتدی امام کے تابع ہے

امام کے تابع ہونے کے لیے نیت ضروری ہے کہ اِس امام کے پیچھے پڑھ رہا ہوں

تو امام جو انجن ہے اس کے تابع ہوں گے جیسا وہ کرے گا وہی حکم ہوگا۔ تلاوت صرف امام کرے گا سب مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی۔ (نماز کے اندر کی دیگر تسبیحات وغیرہ مقتدی کے لیے بھی سنت ہے۔ناقل)


⚠️ تنبیہ:

ہاں کچھ چیزوں میں ہے کہ مقتدی کے لیے پورا کرنا ضروری ہے، جیسے التحیات۔

یہ مسئلہ اکثر لوگ نہیں جانتے، مسئلہ یہ ہے کہ مقتدی کے لیے التحیات پڑھنا واجب ہے لہذا اگر امام صاحب تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے اور مقتدی کی التحیات پوری نہیں ہوئی تھی، تو مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ التحیات پوری کرکے کھڑا ہو۔


اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کی کوئی رکعت چھوٹ گئی امام نے جلدی سلام پھیرا اور آپ کی التحیات پوری نہیں ہوئی تھی، آپ کو اپنی چھوٹی ہوئی رکعت پڑھنا ہے تو پہلے آپ کے لیے التحیات پوری کرنا ضروری ہے، پھر چھوٹی ہوئی رکعت پڑھیں۔ ہاں التحیات شروع ہی نہیں کی تھی تو الگ بات ہے، لیکن اگر شروع کر چکے تھے، امام نے سلام پھیر دیا تو اب التحیات پوری کرکے ہی اٹھیں۔


اہم مسئلہ:

یہیں پر ایک مسئلہ اقتدا کا اور سمجھ لیں:

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ امام صاحب سلام پھیرنے والے ہوتے ہیں اور ہم بالکل اخیر میں پہنچتے ہیں، اُدھر امام نے سلام پھیرا اور اِدھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو ہم امام کے ساتھ جڑے یا نہیں؟

اس میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ کے اللہ اکبر کے کہنے سے پہلے امام کے "السّلام" کا میم ختم ہو گیا تھا، تو اقتدا نہیں ہوئی، امام کے ساتھ نہیں جڑے، اب آپ ہٹیے اور اپنی الگ نماز پڑھیے اور اگر "اللہ اکبر" کی راء کے بعد امام کے "السلام" کا میم ختم ہوا تو اقتدا صحیح ہوگئی، امام کے ساتھ شامل ہو گئے۔


◾چوں کہ زبان سے نیت ضروری نہیں، جب امام رکوع میں ہو یا آخری قعدے میں ہو اور زبان سے لمبی چوڑی نیت کریں تو بہت ممکن ہے کہ رکعت نکل جائے یا امام سلام پھیر دے، تو اس وقت نیت صرف دل سے کر لیں۔


◾ اگر ہم شروع نماز سے شریک ہیں، امام صاحب ایسے قاری ہیں کہ تکبیر تحریمہ اللہ اکبر پڑھنے میں بڑی دیر لگا رہے ہیں، اور آپ کی اللہ اکبر امام کی تکبیر تحریمہ سے پہلے ختم ہو گئی تو آپ کو دوبارا اللہ اکبر کہنا ہوگی ورنہ اقتدا صحیح نہ ہوگی کیوں کہ امام کی نماز ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔


🌻 اور جب آپ امام ہوں تو کیا نیت کریں

◾امام کے لیے امامت کی نیت شرط نہیں جیسے مقتدی کے لیے شرط ہے کہ میں اس امام کے پیچھے پڑھ رہا ہوں، امام کے لیے یہ شرط نہیں کہ مقتدی کو پڑھا رہا ہوں، جیسے اکیلے نماز کی نیت کی جاتی ہے وہ نیت کی، مقتدی جڑتے چلے جائیں یہ امام بن جائے گا۔


◾اسی لیے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، ظہر چھوٹ گئی تھی مثلاً، بعد میں کوئی آکر شامل ہو گیا بشرطیکہ ایک ہی نماز ہو تو جماعت کا ثواب مل جائے گا۔

تو امامت کی نیت ضروری نہیں۔ (البتہ اگر امام امامت کی نیت کرے گا تو اسے امامت کا بھی ثواب ملے گا۔ناقل)


◾ہاں اگر امام کے پیچھے عورتیں نماز پڑھ رہی ہوں تب ان کی الگ سے نیت کرنا ضروری ہے کہ میں خواتین کی امامت کر رہا ہوں، خواتین کو نماز پڑھا رہا ہوں۔


🌻 تراویح کا جو امام ہوگا اس کو بھی متبع سنت ہونا چاہیے اگر کوئی ایسا حافظ ہے جو متبع سنت نہیں ہے، کھلا ہوا فاسق ہے، جیسے داڑھی کٹوانے والا تو اس کی امامت درست نہیں۔

اسی لیے کتابوں میں لکھا ہے کہ امام باشرع اور متبع سنت ہو،

یہاں تک کہ اگر امام داڑھی منڈا فاسق ہے، تو اس سے بہتر ہے کہ متبع سنت امام کے پیچھے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔


🌻جو عام امامت کے لیے شرائط ہیں وہی تراویح کی امامت کے شرائط ہیں۔

◾ بچہ حافظ ہو گیا تو جب تک بالغ نہ ہو جائے یا پندرہ سال کا نہ ہو جائے امامت جائز نہیں ۔

نہ مردوں کو پڑھا سکتا ہے نہ عورتوں کو۔


◾ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ سب نابالغ ہیں تو نابالغ نابالغ کی امامت کر سکتا ہے۔


🌻 تراویح کی امامت سے متعلق چند ضروری ہدایات:

حدیث میں آتا ہے کہ "بعض لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن ان پر لعنت کرنا ہے" اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے!

اس کی کئی تفسیریں ہیں، ایک تفسیر یہ ہے کہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اس کے احکام پر عمل نہیں کر رہا بدعملی میں مبتلا ہے۔ مثلا آیت پڑھی لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ (جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو)اور خود جھوٹا ہو تو خود پر لعنت ہوگی۔


ایسے ہی جو تجوید سے پڑھ سکتے ہیں (جو قادر نہ ہو کوشش کرتا ہے مگر اٹک رہا ہے، اس میں تو ڈبل ثواب ہے) لیکن اگر تجوید سے پڑھ سکتے ہیں، مگر جلدی سنانے کی چکر میں کہ لقب ملے گا حافظِ ریل، "سُپر فاسٹ حافظ" اس لیے تجوید کا خون کر رہا تو فرشتے لعنت کریں گے، نماز ضائع ہوگی۔

وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ترتیل سے پڑھنے کا حکم تراویح میں ختم نہیں ہو جاتا۔


تلاوت کے تین درجے:

ہاں بہت قرأت سے نہ پڑھیں تین درجے ہیں تلاوت کے:

ترتیل: بہت ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا 

پھر تدویر کہ درمیان رفتار سے پڑھا جائے

 پھر حدر کہ رفتار تیز ہو مگر حروف نہ کٹیں، تجوید وقف وغیرہ کی رعایت کے ساتھ۔

آپ تیز پڑھیں مگر کہاں غنہ کرنا ہے کہاں را باریک ہوگی ساری چیزوں کی رعایت کے ساتھ تیز پڑھیں لوگوں کو بھی صاف سننے میں آئے۔


👈 جلدی سنانا کوئی کمال نہیں ہے

تین دن پانچ دن سنانا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ قرآن کی تجوید کا خون نہ کیا گیا ہو ذبح نہ کیا گیا کو، ورنہ اس پڑھنے میں ثواب نہ ہوگا۔

عام طور پر جہاں جلدی کا رواج ہے تو امام صاحب بھی جلدی پڑھ رہے، مقتدی بھی نہیں سنتے، دیر میں آکر رکوع میں شریک ہو رہے

حالاں کہ رمضان المبارک میں تراویح کے قرآن کا ثواب اسی وقت ملے گا جب نیت باندھ کر سنا جائے، بغیر نماز کے نہیں، ہاں اگر تھک گئے ہیں کھڑے ہو کر نہیں پڑھ پا رہے، تو بیٹھ کر پڑھ لیں۔ یہ نہ ہو کہ ادھر تراویح میں قرآن پڑھا جا رہا اور آپ آرام سے بیٹھے رکوع کا انتظار کر رہے، یہ قرآن کریم کی بے ادبی ہے۔


ایک امام صاحب نے رکوع میں شریک ہونے والوں کو سبق سکھایا کہ، پہلی رکعت میں آیت سجدہ پڑھی، رکوع میں گئے، تو لوگوں نے نیت باندھ لی، پھر رکوع سے کھڑے ہوئے تو لمبا کھینچ دیا۔


تو سیدھا علاج یہ ہے کہ جلدی تین پانچ دن والی تراویح چھوڑ دیں، ہاں شرائط ہوں تو الگ بات ہے لوگوں کا بھی جذبہ ہو۔



🌻 چند ضروری مسائل:

◾ بعض مرتبہ تین رکعت میں سلام پھیر لیتے ہیں، تو لقمہ ملتے ہی چوتھی رکعت ملا لے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے، سب صحیح ہو جائے گی۔ یہ اس وقت ہے جب دوسری رکعت پر قعدہ کیا ہو۔

◾ اگر دو رکعت پر نہیں بیٹھے تھے تیسری رکعت پر سلام پھیرا تو تینوں رکعت فاسد ہو گئیں۔ (اور ان میں پڑھا ہوا قرآن بھی دہرانا ہوگا)


◾دو رکعت پر بیٹھے نہیں تھے، تین پڑھ گئے پھر یاد آنے پر چار پڑھ لیں تو آخر کی دو رکعت مانی جائے گی شروع کی نہیں۔

اور جب شروع کی دو رکعت لوٹانی ہوگی تو ان دو رکعت میں پڑھا ہوا قرآن بھی لوٹانا ہوگا۔


◾ اسی طرح عشاء کے فرض نہیں پڑھے تو تراویح میں شامل نہیں ہوسکتے، فرض ضروری ہے، ورنہ تراویح نہ ہوگی۔


◾اگر فرض اکیلے پڑھے جماعت سے نہیں پڑھے، تو تراویح درست ہے، امامت بھی کر سکتے ہیں۔


🌻 بعض مرتبہ سامع لگایا جاتا ہے

تو لقمہ والے کا نماز میں شامل ہونا ضروری ہے، بغیر نیت باندھے لقمہ دیا، لقمہ نہ لیں، ورنہ معلوم ہوتے ہوئے لقمہ لیا تو سب کی نماز خراب ہوگی۔


🍀 ایک حرکت آج کل

نماز میں موبائل سے دیکھ کر لقمہ دیتے ہیں یا لیتے ہیں، دوسرے ائمہ کے یہاں کچھ گنجائش ہے، مگر اپنے یہاں جائز نہیں۔


امام ابوحنیفہ کا امت پر احسان ہے کہ قرآن کے حفظ کو پکا اور یقینی بنایا، نماز کے اندر مصحف سے یا موبائل سے دیکھ کر پڑھنے کی لقمہ دینے اور لینے کی بالکل گنجائش نہیں، تو اب حفظ پکا کریں گے اور اچھا یاد کریں گے، ورنہ اگر اس کی اجازت ہو کہ نماز میں بھول جائیں تو نماز ہی میں موبائل میں دیکھ کر پڑھ لیں تو پھر کون قرآن اہتمام سے یاد کرے گا؟!


◾ قرآن یا موبائل سے دیکھ کر نماز کی حالت میں لقمہ لیا تو نماز فاسد ہو گئی۔


🌻 ترویحہ

 یعنی تراویح کی چار رکعت کے بعد جو وقفہ ملتا ہے، تو تراویح کی تسبیح کے نام سے مشہور دعا کا بہت اہتمام ہوتا ہے، بعض جگہ اس کو مسجدوں میں نمازیوں کے سامنے لگا دیتے ہیں، اتنا اہتمام ہوتا ہے جیسے یہ دعا منقول ہو سنت ہو، تو ایسا نہیں ہے

ترویحہ کا معنی ہی آتے ہیں انٹرول کے وقفۂ آرام۔


صحابہ کرام ساری رات عبادت میں گزارنا چاہتے، تو چار رکعت کے بعد کچھ نفلی اذکار کرتے طواف کر لیتے یا کچھ اور کر لیتے، پھر چار رکعت کے بعد وقفہ ہوتا آرام ہو جاتا۔


تو یہ دعا بزرگوں سے منقول ہے مگر حدیث میں نہیں ہے

مشہور دعا بھی پڑھ سکتے ہیں، درود شریف پڑھ سکتے ہیں اور دوسرا ذکر بھی کرسکتے ہیں۔ اسی دعا کو ضروری سمجھنا غلط ہے۔


◾ بہت سی جگہ اس دعا کو مسجدوں میں نمازیوں کے آگے لگا دیا جاتا ہے، حالاں کہ نمازی کے آگے لکھی ہوئی عبارت لگانی ہی نہیں چاہیے۔

اگر دعا لگائی ہے تو لکھ دیں کہ دوسرے اذکار بھی پڑھ سکتے ہیں۔


❄️ عورتیں تراویح میں شامل ہونا چاہیں تو مسجد میں آنے کے لیے گھروں سے نکلنا درست نہیں، یہ شرعی ضرورت کے بغیر ہے، ان کے لیے اکیلے نماز پڑھنا ثواب کا درجہ رکھتا ہے، عورتوں کے لیے نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکل کر مسجد یا دوسرے گھر جانا مکروہ ہے۔

ہاں گھر میں تراویح ہو رہی ہے تو اسی گھر کی عورتیں پردے کے پیچھے پڑھ سکتی ہیں۔

امام کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کی امامت کی نیت کر لے۔


🌻 سجدہ تلاوت:

آیت سجدہ میں جہاں آپ نے پڑھی تو سجدے میں جانا چاہیے:

◾بعض مرتبہ متشابہ لگتا ہے، بعض مرتبہ لگتا ہے کہ آیت سجدہ آگئی اور سجدہ کر لیا حالانکہ آیت سجدہ بعد میں آرہی، تو آیت سجدہ آنے کے بعد دوبارا سجدہ کرنا ہوگا۔ کیوں کہ جس وقت سجدہ کیا تھا اس وقت اس آیت کی تلاوت ہی نہیں کی تھی تو سجدہ واجب ہی نہیں ہوا تھا۔


◾ اور اگر آیت سجدہ پڑھی، سجدہ کیا، پھر اٹھ کر دوبارا وہی آیت سجدہ پڑھی، تو دوبارا سجدے کی ضرورت نہیں۔


◾اگر آیت سجدہ پڑھی، سجدہ کرنا بھول گئے، تو اگر تین آیتوں سے کم آگے بڑھے تھے تو سجدہ کر لیں کوئی حرج نہیں سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔

◾اگر تین آیتوں سے آگے بڑھ گئے تو اب کر لیں اور آخر میں سجدہ سہو کر لیں۔


◾اگر بالکل بھی یاد نہیں آیا، نماز کے بعد کسی نے بتایا تو اب اس کی ادائیگی کا وقت نہیں رہا، توبہ واستغفار کرے۔

یہ سجدہ تلاوت کے تعلق سے موٹے موٹے مسئلے تھے۔


🌻 تراویح میں سورتوں کے شروع میں بسم اللہ آتی ہے اسے بھی پڑھنا ہے، آہستہ آواز سے۔

◾ اگر سورت کے درمیان میں رکوع کیا، تو اب دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد بسم اللہ نہیں پڑھنی ہے۔


🌻 اگر آپ نے نیت باندھی تراویح کی، سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد بھول گئے کہ کہاں سے پڑھنا ہے، اور اسی سوچ میں کم سے کم تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر ٹھرے رہے، تو آپ پر سجدہ سہو واجب ہو گیا۔


◾ حفاظ نماز کے رکوع اور سجدوں میں آگے کی تلاوت سوچتے ہیں، حالانکہ فقہاء نے اسے مکروہ لکھا ہے، اس وقت کا جو عمل ہے رکوع سجدے کی تسبیح اس کو دھیان سے پڑھنا چاہیے۔ کس رکعت میں کیا پڑھنا ہے یہ سب نماز سے پہلے ہی سیٹ کرکے رکھیں۔ رکوع سجدے میں تلاوت سوچنے سے نماز مکروہ ہو جائے گی۔

بہر حال یہ قرأت کے تعلق سے چند مسائل تھے۔


🌻سجدہ سہو کا طریقہ

کئی طریقے ہیں

اپنے یہاں جو مفتی بہ اور مروج ہے وہ یہ کہ قعدہ اخیرہ میں التحیات کے بعد ایک طرف سلام پھیرکے دو سجدے کریں -صرف ایک سجدہ کیا تو نماز لوٹانا واجب ہوگا- دو سجدوں کے بعد پھر التحیات درود شریف اور دعائے ماثورہ پڑھ کر سلام پھریں۔



اصل تو جب مسئلہ پیش آتا ہے اسی وقت پوچھ لیا جاتا ہے لیکن حفاظ کو موٹے موٹے مسائل ہوں تو آسانی ہوتی ہے، زحمت نہیں ہوتی۔


🌻ایک اہم مسئلہ:

وتر میں دعائے قنوت پڑھے بغیر رکوع میں چلا گیا، لقمہ ملا تو اب رکوع سے کھڑے ہو کر قنوت پڑھنا یہ طریقہ غلط ہے، قنوت پڑھے بغیر رکوع میں چلا گیا تو اب ایسے ہی نماز پوری کرلیں آخر میں سجدہ سہو کر لیں ۔

چاہے ہزار لقمے ملیں مگر رکوع میں جانے کے بعد دعائے قنوت کے لیے کھڑے نہ ہوں۔

اگرچہ کھڑا ہو گیا تب بھی سجدہ سہو کرنے سے نماز ہو جائے گی۔


🌺 باقی نماز کی سنن کا خیال رکھیں:

رکوع کی سنت سجدے کی سنت دیگر تمام سنن کا خیال رکھیں۔


بہت سے لوگ سجدے میں ناک زمین پر نہیں رکھتے حالاں کہ سجدہ میں ناک زمین پر رکھنا واجب ہے، اگر سجدے میں ناک زمین پر نہ رکھی تو نماز لوٹانا واجب ہوگا۔


ایسے ہی سجدے میں پنجے کی انگلیاں زمین پر ٹکی ہونی چاہیے، اگر پورے سجدے میں ایک انگلی بھی ایک لمحہ کے بقدر بھی نہ لگی تو نماز واجب الاعادہ ہوگی دہرانا ہوگی۔

یہ اہم مسائل ہیں خیال نہ رکھنے پر نماز کا اعادہ واجب ہو جاتا ہے۔


🌻 اس لیے پروگرام میں عملی مشق بھی کر لینی چاہیے اور کوئی حرج کی بات نہیں، دور سے بلانے کی بات نہیں، اس میں سے دو چار لوگ پہلے مذاکرہ کر لیں، یا دعوت الحق -وہاں تو مستقل نظام ہے- وہاں سے کسی عالم کو بلا لیں کہ وہ ہماری نماز درست کرا دیں، وہ اذان اقامت نماز سب چیزیں پریکٹل انداز میں صحیح کرا دیں گے۔


بہر حال یہ چند موٹے موٹے مسئلے تھے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔

مزید آپ حضرات کے ذہن میں کوئی سوال ہوگا، تو پروگرام کی ترتیب کے مطابق اس کا بھی جواب دیا جائے گا۔


وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین 


ترتیب وتلخیص: التمش عالم قاسمی 

نوٹ: ہر بات کو بعینہ نقل کرنے کا اہتمام نہ ہوسکا، اس لیے الفاظ، ترکیب اور ربط میں کمی بیشی یقیناً ہوگی، جس کو مرتب کی جانب منسوب کیا جائے۔ بعض جگہ بریکٹ میں مرتب کی طرف سے معمولی اضافہ ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے