وارِداتِ رمضان: 14
نوجوانی: استعارۂ انقلاب
تحریر:
مولانا محمد فہیم الدین بجنوری
استاذ دار العلوم دیوبند
14 رمضان 1444ھ 5 اپریل 2023ء
پندرھویں پارے میں ارشاد باری ہے:
إِذْ أَوَى ٱلْفِتْيَةُ إِلَى ٱلْكَهْفِ فَقَالُواْ رَبَّنَآ ءَاتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا. (کہف: 10)
قرآن کریم کے الفاظ منتخب اور چنے ہوئے ہیں، اسی لیے تدبر کی ترغیب دی گئی، "فتية" کے بجائے "سبعة" کا لفظ دست یاب تھا؛ لیکن اول الذکر پسند آیا؛ کیوں کہ اس میں، عزم وحوصلہ اور جہد وعمل کا اشارہ ہے، فتية: فتی کی جمع ہے، جوان العمر کو فتی کہا جاتا ہے۔
شاہ دقیانوس نے کہف والے نوجوانوں کو تربیتی مہلت دیتے ہوئے نوعمری کا حوالہ دیا تھا، وہ جس پس منظر کو موجبِ رعایت گردان رہا تھا، قومی راکھ میں چنگاری کا سرمایہ وہی تھا، نوجوانی ہی شاہ نامے وضع کرتی ہے، ولولوں اور امنگوں کی بے چینیاں، عزائم واہداف کی انگڑائیاں، آسمانوں پر کمند ڈالنے کی آرزوئیں، نئے جہانوں کی طالع آزمائیاں وغیرہ جذبات جواں دلوں میں سلگتے ہیں، از کار رفتہ عمریں تو شبہائے گذشتہ کے خراج وحساب میں الجھی ہوتی ہیں۔
رب العزت نے عَلَم توحید بلند کرنے کے لیے سات جواں پسند کیے، کلمۂ حق بر سر دربار، سب سے گراں فریضہ ہے، آزمودہ کار یہاں تاویلات کے سہارے ڈھونڈ لیتے ہیں؛ مگر بخت آور ایسے نازک مواقع کی تاک میں رہتے ہیں، پروردگار نے عزیمت کی یہ تاریخ نوجوانوں سے رقم کرائی۔
تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے، بر صغیر میں اسلام کو تازہ کمک پہنچانے کے لیے بھی نوجوانوں کا دستہ منتخب ہوا، چناں چہ حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی سمیت بیشتر بانیان دارالعلوم دیوبند اسی عمر میں تھے جس کو قرآن اشد سے تعبیر کرتا ہے، مولانا ذوالفقار صاحب علیہ الرحمہ کے ماسوا، باقی سب بہشتی عمر یعنی 33 سال کے آس پاس تھے۔
ایک وقت بعد امت مسلمہ کے اسی قلب کی تجدید عمل میں آئی اور نشأۃ ثانیہ کا فریضہ بھی جوان العمر جماعت کے سپرد ہوا، جس کے دم گرم نے اس امانت کے تسلسل اور وراثت کے تحفظ کو یقینی بنایا، اکابر کی صداؤں کو عالمی اعتبار واعتماد دلانے میں، نئے ارباب اختیار نے خوب خوب کردار ادا کیا، نئی کاوشوں نے اکابر کے میزان عمل کو مزید درخشاں، تاباں اور منور کیا۔
جوانی حاصل زندگی ہے، خالق کی نظر بھی جوانی پر ہے، جواں سال عبادت گزار اس کا محبوب بندہ ہے، جوانی کا حساب وہ جداگانہ کرے گا، جوانی کو وہ توشہ قرار دیتا ہے۔
اقبال کا جوان، پر جوش، بلند نگاہ، عالی ہمت اور حوصلہ شعار ہے، وہ آسمان پر کمند ڈالنے کے لیے بے تاب ہے، عقابی روح اس کو بیٹھنے نہیں دیتی، وہ ستاروں سے آگے کے جہاں دیکھتا ہے اور مشرق ومغرب کی تسخیر کے خاکے بناتا ہے۔

0 تبصرے