65a854e0fbfe1600199c5c82

فخر الحسن نامی تین اہم شخصیات اور ان میں باہمی فروق

فخر الحسن گنگوہی (۱۳۱۵ھ)، فخر الحسن مراد آبادی (۱۴۰۰ھ) اور فخر الدین مراد آبادی (۱۳۹۲ھ) تین مختلف شخصیات ہیں۔


اہم فروق :


★علامہ فخر الحسن گنگوہیؒ :

-- حضرت نانوتوی کے شاگرد

-- دار العلوم میں داخلہ ۱۲۸۴ھ

-- فراغت ۱۲۹۰ھ

-- وفات ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ع

-- یہ دار العلوم دیوبند کے استاذ نہ تھے.


★مولانا سید فخر الدین مراد آبادی :

-- حضرت شیخ الہند کے شاگرد

-- دار العلوم میں داخلہ ۱۳۲۶ھ

-- فراغت ۱۳۲۸ھ 

-- وفات ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲ع

-- یہ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے، صدر المدرسین نہ تھے. بخاری کی سند میں حضرت پالن پوری کے استاذ یہی ہوتے ہیں.


★فخر الحسن مراد آبادی :

-- حضرت مدنی کے شاگرد

-- دار العلوم میں داخلہ ۱۳۴۳ھ

-- فراغت ۱۳۴۷ھ

-- وفات ۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰ع 

-- یہ دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین تھے، شیخ الحدیث نہ تھے. شمائل کی سند میں حضرت مدراسی کے استاذ یہی ہوتے ہیں.


★ تینوں کے مختصر تراجم:


★علامہ فخر الحسن گنگوہی :

حضرت مولانا فخر الحسن بن عبد الرحمن بن مولوی حبیب الرحمن انصاری سہارنپوری گنگوہی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رح سے تعلیم حاصل کی۔

مدرسہ عربیہ(دار العلوم) دیوبند قائم ہونے کے بعد 1284ہجری میں داخلہ لیا. 

مدرسہ میں اور حضرت قاسم نانوتوی رح کی خدمت میں اعلی کتابیں پڑھیں، 1290 میں انہوں نے حضرت مولانا احمد حسن امروہی رح کے ساتھ فراغت حاصل کی۔

حضرت قاسم نانوتوی رح کے ممتاز و منتخب تلامذہ میں سے تهے، سفر و حضر میں اپنے استاذ حضرت نانوتوی رح کے ساتھ رہتے تھے، مناظرہ سے بڑی دلچسپی تهی، دہلی میں حکیم محمود خان سے طب کی تعلیم حاصل کی ، گفتگو اور تقریر شریں اور دل کش تهی۔

فراغت کے بعد 1294 ہجری میں خورجہ کے مدرسہ میں صدر مدرس مقرر ہوئے، پهر دہلی کے مدرسہ عبد الرب میں چلے گئے۔

حضرت مولانا قاسم نانوتوی رح کے علوم و افادات کے حفاظت اور ترتیب و تحریر اور اشاعت میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں، حضرت نانوتوی رح کی متعدد اہم ترین تالیفات کی ابتدائی اور صحیح ترین نسخے مولانا فخر الحسن گنگوہی رح کی توجہ اور کوشس سے چهپے۔ مباحثہ شاہ جہان پور انہی کا مرتب کیا ہوا ہے، اس کا اصل نسخہ دار العلوم دیوبند میں موجود ہے، انہوں نے حدیث میں ابو داؤد کا ایک مبسوط حاشیہ 'التعليق المحمود' کے نام سے لکها ہے؛ یہ حاشیہ مطبع مجیدی کانپور میں چهپا ہے، اور عام طور پر متداول ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ابن ماجہ کا بهی حاشیہ لکها ہے جو مطبع نامی کانپور میں چهپا تها؛ ان کا ایک حاشیہ تلخيص المفتاح پر بھی ہے۔

انہوں نے اپنے استاذ محترم حضرت نانوتوی رح کی ایک مفصل سوانح حیات بهی لکهی تهی، جو کم و بیش ایک ہزار صفحات پر مشتمل تهی۔

حضرت فخر الحسن گنگوہی رح اپنی بعض خانگی مجبوریوں کی وجہ سے گنگوہ سکونت ترک کر کے کانپور چلے گئے تھے، اور وہیں مطب اور مستقل طور پر سکونت اختیار کر لی تھی، کانپور میں ان کے مکان میں آگ لگ گئی، جس میں کتابوں کے ساتھ سوانح عمری حضرت نانوتوی کا مسودہ بهی جل گیا۔

1315ہجری /1897 عیسوی میں کانپور میں وفات پائی، اور وہیں مدفون ہیں۔ 

ان کے حالات تفصیل سے دستیاب نہیں ہیں۔


★مولانا سید فخر الدین مراد آبادی :

۱۳۰۷ھ مطابق ۱۸۸۹ع میں آپ کی ولادت اجمیر میں ہوئی۔

چار سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہوا؛ قرآن شریف والدہ ماجدہ سے پڑھا، فارسی کی تعلیم اپنے خاندان کے بزرگوں سے حاصل کی، عمر کے بارہویں سال مولانا خالد سے عربی نحو و صرف کی. متوسطہ کی کتابیں گلاؤٹی اور دہلی کے مدارس میں پڑھ کے ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۸ع میں دار العلوم آئے؛ حضرت شیخ الہند کی ہدایت کے مطابق ایک سال کے بجائے دو سالوں میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی. دار العلوم کے زمانۂ طالب علمی ہی میں طلبہ معقولات کی کتابیں پڑھانے لگے تھے.

۱۳۲۸ھ مطابق ۱۹۱۰ع میں تعلیم سے فراغت کے بعد دار العلوم میں مدرس مقرر ہو گئے؛ مگر کچھ عرصہ کے بعد اکابر دار العلوم نے شوال ۱۳۲۹ھ مطابق ۱۹۱۱ع میں آپ کو مدرسہ شاہی مدسہ شاہی مرادآباد بھیج دیا، جہاں تقریبا ۴۸ سال قیام رہا۔

مولانا ممدوح چونکہ حضرت شیخ الہند اور علامہ کشمیری کے خاص تلامذہ میں سے تھے، اس لئے آپ کے درس حدیث میں دونوں جلیل القدر اساتذہ کے رنگ کی آمیزش پائی جاتی تھی. آپ کے درس بخاری شریف کو شہرت تام و قبول عام حاصل تھی. اپنے دور میں یگانہ روزگار عالم اور درس حدیث کے بے مثل استاذ تھے اور طلبہ ان سے تلمذہ پر فخر محسوس کرتے تھے۔

۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷ع میں حضرت مدنی کی وفات کے بعد دار العلوم کی مجلس شوری کے اراکین نے دار العلوم دیوبند کے لئے آپ کا انتخاب کیا، حضرت مدنی رح نے مرض وفات میں باصرار آپ کو مرادآباد سے بلا کر اپنی جگہ صحیح بخاری کے درس کے لئے مامور کیا تھا. اس سے پہلے بھی دو مرتبہ حضرت مولانا مدنی رح کی گرفتاری اور رخصت کے زمانے میں آپ دار العلوم میں صحیح بخاری کا درس دے چکے تھے۔

کثرت مشاغل کے علاوہ ملکی سیاست سے بھی آپ کو تحریک خلافت کے زمانے سے تعلق رہا؛ اس کے نتیجے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں. حضرت مدنی رح کی جمعیۃ علمائے ہند کی صدارت کے زمانے میں دو مرتبہ نائب صدر رہے اور بعد ازاں مسند صدارت پر فائز ہوئے؛ اور تا دم واپسی جمعیۃ علمائے ہند کی صدارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

اپنے دور کے علم و فضل کا یہ آفتاب مرادآباد میں کچھ عرصہ علیل رہ کر ۲۰ صفر ۱۳۹۲ھ مطابق ۵ اپریل ۱۹۷۲ع کی تاریخ میں نصف شب کے بعد ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔

مرادآباد میں جگر روڈ پر واقع حوض والی مسجد کے جانب مشرق میں مدفون ہیں.

دار العلوم دیوبند میں صحیح بخاری کے درس کا یہ عظیم تعلیمی منصب تقریبا ۶۰ سال سے حضرت شیخ الہند رح کے تلامذہ میں مسلسل چلا آ رہا تھا؛ حضرت مولانا فخر الدین احمد مرادآبادی رح کی وفات کے بعد یہ تسلسل ختم ہو گیا۔


★ مولانا فخر الحسن مرادآبادی :

۱۰ رجب ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۹۰۶ع کو مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ 

قرآن شریف، اردو، دینیات اور ابتدائی فارسی کی تعلیم حافظ نسیم الدین اور حافظ عبد القادر امروہی سے حاصل کی، آپ تقریبا ۱۳۳۵ھ میں مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخل ہو گئے اور فارسی کی تکمیل کی. درس نظامی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں؛ پھر متوسطات کی تحصیل کی مظاہر علوم سہارنپور میں ۱۳۴۳ھ مطابق ۱۹۲۵ع میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور ۱۳۴۷ھ میں دورۂ حدیث کی تکمیل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ عالیہ فتح پوری میں مدرس مقرر ہوئے، پھر وہاں سے آپ بہار چلے گئے اور مدرسہ شمس الہدی پٹنہ میں صحاح کی بعض کتابیں پڑھانے پر مامور کئے گئے؛ مگر ڈیڑھ سال کے بعد دوبارہ مدرسہ عالیہ فتح پوری میں واپس آگئے اور صحیح مسلم و امور عامہ وغیرہ کتابیں دی گئیں۔

کچھ عرصہ کے بعد دار العلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ہو گیا، آپ کے درس صحیح مسلم اور تفسیر بیضاوی کو خاص شہرت حاصل ہوئی. چنانچہ بیضاوی کی آپ کی درسی تقریر التفسیر الحاوی شائع ہو کر قبول عام حاصل ہوئی۔ وعظ و تقریر میں دستگاہ حاصل تھی۔

۱۳۸۷ھ میں حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی رح کی وفات کے بعد آپ کو دار العلوم کا صدر المدرسین بنایا گیا؛ جس پر آپ وفات (۱۴۰۰ھ) تک فائز رہے۔

حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری رح کے یہ اجل خلیفۂ مجاز، ہزاروں علماء و صلحاء کے استاذ قاسمی قبرستان میں حضرت نانوتوی قدس سرہ کے بالکل پیچھ ے(جانب شمال میں) مدفون ہیں۔

ناقل: مولانا شاہ جہاں قاسمی مدنپلی 

================

ضروری نوٹ:


اس مضمون پر حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم نے مندرجہ ذیل استدراک پیش فرمایا ہے

👇

ماشاءاللہ بہت اچھی ترتیب سے تعارف لکھا گیا ہے البتہ ایک استدراک ضروری ہے کہ حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادی رحمہ اللہ تقرر کے وقت شیخ الحدیث ہی بنائے گئے تھے کیونکہ اس وقت علامہ بلیاوی قدس سرہ کو صدرالمدرسین بنایا گیا تھا لیکن 1387ھج میں علامہ بلیاوی رح کی وفات کے بعد صدارت تدریس کا منصب حضرت مولانا فخرالدین رحمہ اللہ کو ہی تفویض کردیا گیا تھا اس طرح وہ اخیر کے پانچ سالوں میں شیخ الحدیث بھی تھے اور صدرالمدرسین بھی


حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب دامت برکاتہم 

استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے