وارِداتِ رمضان (قسط: 25)
نمازِ رسول، نمازِ عشق وفا
تحریر:
مولانا محمد فہیم الدین بجنوری قاسمی
استاذ دار العلوم دیوبند
25 رمضان 1444ھ 17 اپریل 2023ء
چھبیسویں پارے میں ارشاد ہے:
لَّقَدْ كُنتَ فِى غَفْلَةٍۢ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ ٱلْيَوْمَ حَدِيدٌ(ق: 22)
چلو آج نمازِ عشق وفا ادا کرتے ہیں:
مؤذن کی دعوت پر لبیک کے اپنے معانی ہیں، یہاں آپ نے یوٹرن لیا ہے، عارضی نقشوں کی راہ کے تعاقب میں سرپٹ دوڑتی زندگی کی سواری کو، اذان کے کلمات سنتے ہی وقفہ دیا اور موڑ لے کر اس کے دربار حاضر ہوگئے۔
ان کی باریابی میں شرائط عائد ہیں، وہاں ظاہری پاکیزگی کو بھی اہمیت دی گئی ہے، مواجہہ سے قبل وضو کرنا ہے، یہ حاضری میں شمولیت کا پاس ہے، یہاں قدسی مخلوق کی ہمہ ہمی ہے، وہ آپ کے گرداگرد جمع ہیں، خبردار! یہاں وضو ضائع نہ کریں، ان کی طبیعتوں میں آلودگی کا تحمل نہیں ہے، وہ تمھارا رپورٹ کارڈ تیار کرنے آئے ہیں، ان کی طبع حساس کا لحاظ تو تمھاری ترجیح ہونی چاہیے!
"صدائے کبریائی" آپ کے لیے جہانِ خاک سے رخصتی کا کنایہ ہے، دست بستہ آپ نئی دنیا میں ہیں، یہ حقیقی دنیا ہے؛ مگر ضعف بصر نے اسے میٹاورس اور افتراضی دنیا کے طور پر تسلیم کرایا ہے، جس دن بینائی تیز ہوگی، وہی عالم تنہا خلاصۂ صدق وحق نظر آئے گا: لَّقَدْ كُنتَ فِى غَفْلَةٍۢ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ ٱلْيَوْمَ حَدِيدٌ(ق: 22)
آپ کا قیام بندگی ہے، سجدہ گاہ در اصل جلوہ گاہ ہے، وہاں عرش آراستہ ہے اور معبودِ دو جہاں تجلی آرا ہے، آپ اس کے رو بہ رو، غلامانہ کھڑے ہیں، رب کو دیکھ رہے ہیں، یہ طے شدہ ہے، آپ کو مالک نظر آرا ہے، ورنہ بتاؤ کہ پھر وہ آپ کو کیسے دیکھ رہا ہے؟ دو طرفہ نگاہوں کے تبادلے میں یہ ممکن نہیں کہ رویت یک طرفہ ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مضمون پرجوش پیرایے میں سمجھایا ہے؛ بل کہ باور کرایا ہے، یہ بخاری کی ابتدائی حدیث ہے اور نگینے کی طرح چمکتی ہے، آپ کا اصرار ہے کہ نمازی خدا کو دیکھتا ہے، اس بیانیے کو آپ نے خود ہی مدلل بھی فرمایا ہے۔
آپ کو تردد کیوں ہے؟ جب کائناتی نظام کے جملہ جھمیلوں کے علی الرغم اس کی رویت آپ سے وابستہ ہے، تو آپ کو یہ تسلیم کرنے میں کیا تامل ہے کہ نگاہیں سجدہ گاہ پر نہیں، "مقصودِِ سجود" پر گڑی ہوئی ہیں، آپ جمالِ ازل میں کھوئے ہیں، اس کے دیدار نے اسیر بنا لیا ہے، وارافتگی کا یہ عالم ہے کہ پاؤں کے ورم سے غافل ہیں اور امام کی تکبیر برائے رکوع ناگوار طبع ہوتی ہے، گویا کسی ثالث نے ہم آغوشی میں مداخلت کردی کہ عالمِ بے خودی میں پہلو بدلنا بھی گراں گذرتا ہے۔
رکوع میں آپ محبوب کو آداب پیش کر رہے ہیں، یہ خم بہت مقبول ہے، اصل سجدہ ہے جو بندگی کی معراج ہے؛ مگر رفعتیں زینوں سے گذرتی ہیں؛ اس لیے خلاصۂ نماز یعنی سجود سے قبل رکوع کا نذرانہ اہم قرار پایا، آپ آداب بجا لائے، سجدے کی اجازت کے طالب ہوئے، تخلیہ طلب کیا، آپ کا سوز مقبول ہوا اور سجدہ ریزی کی اجازت ہوگئی، یہ خلوت خاصہ ہے، آپ ہیں اور آپ کا رب ہے، کراما کاتبین بھی آپ کی مناجات سے بے خبر ہیں، قرب لامتناہی ہے، آپ حوصلہ دکھاؤ اور ارمان نکالو، وہ ظرف دیکھتے ہیں، خزانے نہیں، خزانے تو غیر محدود ہیں۔
قطب وقت حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی کو سجود میں بوسے کا گمان وتجربہ ہوتا تھا، حضرت اظہار بھی فرما دیتے تھے، امام ربانی حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ کے یہاں ضبط تھا، کسی وقت ناگواری کا عندیہ پہنچا، تو حضرت گنج مراد آبادی علیہ الرحمہ شدت جذبات سے مغلوب ہوئے اور فرمایا کہ خود سمندر پیے بیٹھے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے، یعنی جب وہ ضبط اور ظرف نہیں ہے تو جام کی سرکشی اور اچھال معاف رکھا جائے۔
دونوں قطب ہم زمانہ اور ہم پایہ ہیں؛ لیکن امام ربانی کو سنت کا اضافی اثاثہ بھی عطا ہوا، انھوں نے امانت کا کیا ہی حق ادا کیا کہ طریقت کی راہ میں شریعت وسنت کے قمقمے اور فانوس نصب کردیے اور تصوف کو ابد الآباد منور، درخشاں اور تاباں بنا دیا۔
سجود کے بعد دو زانو بیٹھ کر رخصتی چاہو، جاتے ہوئے تحیات پیش کرو، جاں نثاری اور فنائیت کا اعادہ کرو، ان کے نبی کا حوالہ اور وسیلہ بھی شامل کرو، سلام الوداع آپ کو رنجیدہ بنادے، گویا صبح کے شور نے شب زفاف کی خوش عیشی چھین لی ہو۔
حدیث احسان کہ جس میں نمازی کو رویت باری تلقین کی گئی ہے، وہ "نسبتِ حضوری" اور "نسبت یاد داشت" کا سر چشمہ اور اصل ہے، حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ سالہا سال چہرۂ حضرت حق سامنے رہا اور ان سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا، یہ اسی نسبت کا ذکر ہے، یا وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک بات نہ ہوتی تو مولانا قاسم نانوتوی کی وفات پر میری جان نکل جاتی، حاضرین استفسار کرتے ہیں کہ وہ کیا بات ہے؟ تو فرماتے ہیں کہ وہی بات جس کی وجہ سے تم یہاں جمع ہو، یہ بھی اسی نسبتِ احسان کا استعارہ ہے۔
حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ کے ارشادات سے جو مقام مترشح ہے، وہ اسی ریاضت کا ثمرہ ہے، جس کی ہدایت حدیث بالا میں وارد ہے، تخیل بڑی قوت ہے، معدومِ محض کا تخیل بھی کرشمہ کرتا ہے، کہتے ہیں کہ کھچڑی کو بریانی کے تصور سے کھاؤ تو وہی لطف آتا ہے، یہاں تو واقع اور حقیقت کا تصور کرایا جارہا ہے، رسول اللہ کی تاکید کے بعد بھی گو مگو کے کیا معنی؟ وہ فرما رہے ہیں کہ دوران عبادت تمھیں رویت رب حاصل ہے، تو ہمیں کیوں تردد ہے؟
ذات رب اور حضور تجلی کا مسئلہ بھی حضرت گنگوہی نے حل فرمایا، حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری نے خلجان پیش کیا تھا کہ احاطۂ ذات باری کا مراقبہ کروں یا نور کے احاطے کا؟ تو حضرت نے فرمایا: میاں جہاں نور وہاں رب، تم رب کا تصور کرو، بخدا! یہ ایک جملہ کتاب معرفت ہے، بس تصور جماؤ کہ رب کو دیکھ رہے ہو۔
0 تبصرے