وارِداتِ رمضان (قسط: 23)
جنت کی رعنائیاں
تحریر:
محمد فہیم الدین بجنوری قاسمی
استاذ دار العلوم دیوبند
23 رمضان 1444ھ 15 اپریل 2023ء
چوبیسویں پارے میں ارشاد باری ہے:
وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىٓ أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (فصلت: 31)
خالق کائنات نے، زیبائی وخوبی، دلکشی و دلربائی، بانکپن ورعنائی، جمال اور دیدہ زیبی جنت پر ختم کردی ہے، وہ جب اس شاہ کار سے فارغ ہوا تو خاص الخاص فرشتے جبریل سے معائنہ کرایا اور تبصرے پر بھی مامور کیا، وہ بہ ہر حال مخلوق ہے، خالق کے تراشے کی منظر کشی کیا کرتا! وہ عجز بیانی کی فریاد دہراکر خاموش ہوا، یوں جنت کے بارے میں ازل سے ایک ہی تعارف متوارث بن گیا:
"نظر وسماعت تو کجا، وہ تصور وخیال سے بھی ماوراء ہے!"
قرآن کریم ستائشِ جنت سے معمور ہے، وہ ترغیب میں برانگیختہ والی حد تک گیا ہے، جہاں بعض حجاب شرما سے گئے ہیں، ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ وہ اس کے خزانوں کا عطر ہے، ایسا عطر جو برائے فروخت بھی ہے، ایک آئینۂ جمال ہے جو عالم دلفریب سموئے ہوئے ہے، دستور تجارت کے تحت اس نے سامان کو خوب سجایا ہے اور پھر سطر سطر پر مدح سرائی بھی کی ہے۔
تا ہم جنت کا امتیاز تین خوبیوں میں سمٹ آیا ہے، جنت کا حسن ان تین صراحتوں کے دوش پر بہت وقیع، بے نظیر، لازوال اور البیلا وانمول ہو گیا ہے؛ بل کہ ان کی بہ دولت ممکنہ نقائص کے بادل چھنٹے، جمال نکھرا اور دل کشی ابدی ودائمی ہو گئی۔
1- فرماتے ہیں کہ نعمتوں کی فہرست درکنار، آپ کی ضیافت وخدمت حسب خواہش ہوگی، ہماری تیاریوں کے قصے ہٹاؤ کہ فہم سے بالا ہیں، بس یوں سمجھو کہ محفلِ نشاط سارے ارمانوں کو محیط ہوگی، ہفت اقلیم کا بادشاہ بھی خواہشوں کی تشنگی لیے مرتا ہے، ہارون رشید ایک دن خالص عیش وطرب میں گزارنا چاہتا تھا، ناکام رہا قصہء وفات کنیز معروف ہے، "اے بسا آرزو کہ خاک شدہ" دنیائے رنگ وبو میں ہر فرد کی آپ بیتی ہے؛ مگر وہاں کا ماحول جدا ہے، ادنی جنتی کا ہر خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، ہر آرزو پوری ہوگی، ہر خواہش تجربۂ زندگی ہوگی:
وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىٓ أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (فصلت: 31)
2- خلد مکینوں کا فرقِ مراتب، موجب تحفظات تھا، خیال آتا تھا کہ درجات سافلہ والوں کو بے لطف ومکدر کرنے کے لیے تو بالائی مناظر ہی کافی ہوں گے، درجات کے فرق والی جنت تو بجائے خود عذاب اور سوہان روح ہوگی، رہائش، اسباب اور حور وقصور کی کوالٹی ادنی والوں سے کیوں کر ہضم ہوگی؟
قرآن اس خیال کا نوٹس لیتا ہے، فرماتے ہیں کہ باب داخلہ پر جنتی رنگ کا بندوبست ہے، وہاں سینوں کی دھلائی عمل میں آئے گی، اخلاقی رذائل، مسابقتی نفسیات، حرص وامنگ کے جذبات اور جملہ بشری کمزوریاں فلٹر ہو جائیں گی اور ہر شخص اخلاق عالیہ کے مقدس حوض میں نہاکر آگے بڑھے گا، وہاں حسد وکینہ جیسی فروتنی سے طبائع یک سر نا آشنا ہوں گے، بس برادرانہ فضا اور مثبت ماحول ہوگا:
وَنَزَعْنَا مَا فِى صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَٰنًا عَلَىٰ سُرُرٍۢ مُّتَقَٰبِلِينَ(الحجر: 47)
3- جنت کی تیسری خصوصیت جس نے مجھے وارفتہ کیا وہ بوریت اور بے زارگی سے سلامتی وتحفظ ہے، نقش کیسا ہی باکمال ہو، یا لذت کیسی بھی ہوش ربا ہو، طبیعت کی کمزوری ہے کہ وہ شاد ہو کر بے زار اور سیر ہو کر بوجھل ہو جاتی ہے، وہ تغیر پذیر واقع ہوئی ہے، شاہ کار چیزیں بھی روزینہ تجربہ بن جائیں تو معمولی ہو جاتی ہیں، لال قلعہ کے دامن کا خوانچہ فروش، اب اسے پر شکوہ نہیں مانتا، وسوسہ دامن گیر تھا کہ حور وقصور قیامت خیز سہی؛ مگر تا بہ کے! مبادا طبیعت اپنی پر آگئی تو کہاں جائیں گے؟ اور اس بے لطفی میں لامتناہی زمانہ کیسے گذرے گا؟
قرآن نے اس خلجان کو ایڈریس کیا اور فرمایا کہ جنت کی دل کشی ہر ساعت تازہ ہوگی، جس طرح حوریں ہر ملاقات میں دوشیزہ ہوں گی، دیگر نعمتوں کا تجربہ بھی ہر دم نیا ہوگا؛ حتى کہ مکرر پیش کیا جانے والا میوہ بھی جداگانہ ذائقہ دے گا، ہر جنتی اپنے درجے پر مطمئن وشاداں ہوگا، یہاں تک کہ تبدیلی کا خیال بھی اسے گراں بار طبع معلوم ہوگا، آؤ قرآن کی تعبیر دیکھیں، وہ کہتا ہے کہ ابد الآباد رہیں گے؛ مگر تبدیلی کے خواہاں کبھی نہ ہوں گے:
خَٰلِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا (كہف: 108)
0 تبصرے