وارِداتِ رمضان: 13
اکابر کی تواضع، اصاغر کے تازیانے
تحریر:
مولانا محمد فہیم الدین بجنوری
استاذ دار العلوم دیوبند
13 رمضان 1444ھ 5 اپریل 2023ء
امام تراویح آگے بڑھ چکا ہے؛ مگر ذہن ہنوز سورۂ یوسف میں ہے، ارشاد باری ہے:
وَمَآ أُبَرِّئُ نَفْسِىٓ ۚ إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةٌۢ بِٱلسُّوٓءِ (یوسف: 53)
سیدنا یوسف علیہ السلام، قضیۂ زلیخا سے سرخ رو اور بصد ناز نکلے تھے، ایسے فاتحانہ تناظر انسان کو مغرور بنا دیتے ہیں، یہ خود ستائی، کبر اور فریق کی تحقیر کا موقع ہے؛ لیکن پیغمبر عالی ظرف ہوتے ہیں، نمود وشہرت کے ایسے مواقع پر وہ بچھ جاتے ہیں، فتح مکہ یاد کرو، سیدنا یوسف علیہ السلام نے ساحل رسائی پر دو نہایت عمدہ تاثر پیش کیے۔
فرماتے ہیں کہ عدالتی تصفیہ کارروائی کے غلط معانی نہ نکالے جائیں، میں نفس کا قصیدہ خواں نہیں ہوں، تزکیۂ ذاتی حاشیۂ خیال میں بھی نہیں، خاتون خانہ کی دل ربائی نے بار امانت سے لاپرواہ نہیں کیا تھا اور بند قبا میں کوئی ڈھیل، یا دامن پر کوئی چھینٹ نہیں آئی، بس اتنی یاد دہانی پیش نظر تھی۔
دوسری بات یہ فرمائی کہ نفس برائی کی ترغیب دیتا ہے، یہ سن کر جدت پسند ڈوب مریں، جو غیر محرم خواتین کے ساتھ بے تکلف میل جول رکھتے ہیں اور توجیہ میں اپنے دلوں کی صفائی کے حوالے دیتے ہیں، پیغمبر کو تو خواتین کی تنہائی پُر خطر اور نفس شر انگیز نظر آئے اور ہما شما کے دل صاف اور لائق اطمینان ہوں!
با کمال انسان کا قبلہ بلند وبالا ہوتا ہے، اس کو ماضی کی دریافتیں حقیر معلوم ہوتی ہیں، وہ تواضع اور متوقع منزلوں کو سامنے رکھ کر اپنی متاع حیات کو کہتر قرار دیتا ہے، نادان اور بد خواہ اس کو لے اڑتا ہے اور موضوع تمسخر بناتا ہے۔
حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ حلفیہ فرماتے تھے کہ میرے اندر کوئی کمال نہیں، حضرت علامہ کشمیری علیہ الرحمہ نے سوختۂ زندگی کو بے سود قرار دیا اور فرمایا کہ زندگی حنفی مذہب کی تائید میں ضائع ہو گئی، یہ وہی تواضع ہے، جس میں منزل آسمانوں اور جہانوں سے بہت آگے ہوتی ہے، اگر مذاہب اربعہ کی تائید میں متاع وقت کی سرمایہ کاری خسارہ ہے، تو امت مسلمہ کا ننانوے فی صد سے زیادہ متاع فخر، رائیگاں کہلائے گا؛ کیوں کہ دین کے تمام خدام، احادیث کے مدونین وناقلین، قرآن کے تمام مفسرین اور دین کے جملہ مرتبین وشارحین یعنی فقہا نے زندگی بھر وہی کیا ہے، جس کو کشمیری تواضع فروتر کہہ رہی ہے۔
ہمارے اساتذہ میں حضرت مولانا ریاست علی بجنوری علیہ الرحمہ اسی رنگ وآہنگ کے مالک تھے، میرا مطالعہ بالکل نہیں، مجھے معلوم نہیں، میں قطعی نہیں جانتا؛ وغیرہ ان کا تکیۂ کلام تھا، ہم تلامذہ کو تحفظ رہتا کہ کہیں نووارد اس کو حقیقت پر محمول نہ کرلے، مشکات جلد اول کے درس میں ایک دن بجلی گرائی، فرمانے لگے کہ میں کچھ مراجع نہیں رکھتا، مجھے تو بہشتی زیور کافی ہوجاتی ہے، اسے دیکھ کر پڑھا دیتا ہوں، میری تحریر پر تامل ہوتا تو فرماتے کہ میرا مطالعہ تو بالکل نہیں، تم نے درست ہی لکھا ہوگا، پھر بھی ذرا قسطلانی اٹھاؤ اور اس کے بعد نظر ثانی ہی واحد راستہ بنتا، اس میں تخلف یاد نہیں، ان کی گرفت ہمیشہ بر محل واقع ہوئی۔
تواضع کا ذکر، میرے شیخ کے بغیر ناتمام ہے، حضرت الاستاذ مفتی عبد الرحمن صاحب دامت برکاتہم خاتمِ تواضع ہیں، تلامذہ در تلامذہ کے بے ہنگم بیانات کون برداشت کرتا ہے؟ حضرت روزانہ کی بنیاد پر شرفِ سماعت بخشتے ہیں اور وہ بھی پورے اہتمام کے ساتھ، باادب اور دو زانو بیٹھ کر، میری طالب علمی میں ایک لڑکے نے پانی کا جگ دے کر حکم دیا کہ جاؤ پانی لے کر آؤ، بجلی گل ہوئی تھی، اندھیرا چھایا ہوا تھا، دستی نل دو زینے نیچے تھا، بجلی واپس آنے تک حضرت والا بے تکلف پانی لا چکے تھے، ایک مہتمم دکھا دو جو مدرسے کے بیت الخلاء میں باری کے لیے رکتا ہو اور طالب علم کے فارغ ہونے تک باہر ٹہل کر انتظار کرتا ہو؟

0 تبصرے