65a854e0fbfe1600199c5c82

حور وقصور: راہِ زہد کے دل فریب توشے



 نوٹ:

"انتیس راتوں کی تراویح میں، آج قرآنی محراب پایۂ تکمیل کو پہنچی، اسی کے زیر سایہ جاری، یومیہ تاثرات اور واردات کی کڑیاں بھی پوری ہوئیں، رمضان بھر ان حقیر نقوش کو اذنِ حاضری اور شرفِ باریابی بخشنے پر سب کا شکریہ، اس انتساب کا آخری تراشہ پیش خدمت ہے۔"


وارِداتِ رمضان  (قسط: 29)

حور وقصور: راہِ زہد کے دل فریب توشے 


تحریر:

مولانا محمد فہیم الدین بجنوری قاسمی 

استاذ دار العلوم دیوبند 

29 رمضان 1444ھ 21 اپریل 2023ء 


تیسویں پارے میں ارشاد باری ہے:

وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا (النبأ: 33)


پالن ہار نے  زندگی کا نظام بہت پختہ وپُرکار بنایا ہے، اس نے کاروان کو ضرورت ولذت کے سنگم سے وابستہ کیا، کھانا پینا اس بندوبست کی کلید ہے، فرض کرو اگر اکل وشرب بے لذت اور مجرد سد حاجت ہوتا، تو دسترخوان بھی وبال جان قرار پاتا، جس خوان پر ہم ٹوٹ کر گرتے ہیں، وہاں کشاں کشاں حاضری درج کرتے۔


توالد کا سلسلہ جنسی ملاپ پر منحصر ہے، اس کو معمورۂ ارض سجانا تھا، اس عمل کو لذت کا استعارہ بنا دیا، وہ انسانی دریافتوں، تجربات؛ حتی کہ تصورات تک میں سر فہرست ہے اور اس کے سامنے تمام لذائذ ہیچ ہیں، یہ تبصرہ خانہ زاد نہیں، علامہ ابن الجوزی جو صوفیا کا جھومر ہیں، جماع کو "الذ الاشیاء" سے تعبیر کرتے ہیں، صید الخاطر میں یہ تاثر موجود ہے، خاتون خانہ ولادت کی تکلیف پر حلف اٹھاتی ہے کہ آئندہ اس انجام تک پہنچانے والی راہ سے اتفاق نہیں کروں گی؛ مگر وہ گریزاں تو کجا داعی ومحرک بن جاتی ہے، سوچو اگر جنس میں لذت کا تڑکا نہ ہوتا تو اس کسرت کے لیے کون قیمتی فراغت مختص کرتا، صنف نازک کی ناز برداری کیوں ہوتی؟ گھرستی کے جھمیلے کون پالتا؟ کاروان زندگی رواں کیسے رہتا؟


پھر اس نے لذتوں کو محدود کیا؛ تا کہ بد نظمی نہ ہو، لذت کوشی لا متناہی ہوتی تو بھی خرابی یقینی تھی، انسان مقصد سے غافل ہوجاتا، کھانا کیسا ہی لذیذ ہو ایک حد پر سگنل سرخ ہوجاتا ہے اور بجز سانس کے دیگر گنجائش نہیں رہتی، ناچار دست کش ہونا پڑتا ہے، جنس میں مرد کو حد بند کیا گیا، کیسا ہی صحت مند وجوان ہو، آخرش اسی کی ہزیمت پر "کھیل کود" موقوف ہوتا ہے، بہ صورت دیگر خاتون بڑی قیمت چکاتی، جنسی نظام میں زنانہ غلبہ عورت کے حق میں خدا کی رحمت کا آئینہ ہے۔


خیر! عمل لذت ختم ہوجاتا ہے؛ مگر اس کا خیال بے چین کرتا ہے، اس کی انگڑائیاں حد آشنا نہیں ہوتیں، وہ مقررہ حدود سے باہر جھانکتا ہے، ایسی صورت میں انسان تصورات وتخیلات سے شاد کام ہوتا ہے، کھچڑی میں بریانی اور گھر والی میں باہر والی کے تانے بانے بناتا ہے اور غیر محدود عیاش ذہن کو تسکین فراہم کرتا ہے۔


 خدا ہماری نفسیات کا خالق ہے، اس نے لذتوں کی سرکشی کو پیش نظر رکھا اور حور وقصور سے حجاب اٹھاکر، جھوٹی وافتراضی فینٹسی کی جگہ، سچی اور حقیقی نعمتیں متعارف کرائیں، خیالی پلاؤ میں کھوئے ذہن کو واقعی تمتعات سے واقف کرایا، مردہ تصورات میں مست رند کو زندہ نشاط سے آگاہ کیا۔


 اقبال کہتا ہے کہ صوفی گہرا ہوتا ہے، سادہ لوحی پر نہ جائیں ان کی شب بیداری کے پیچھے حورو قصور کا ایقان ہے، قرآن کے چھیڑے ہوئے تار، اس راہ کے مسافر کو بے خود وسرشار کرتے ہیں، اُس جہاں کی آسائشیں اسے بستر سے دور رکھتی ہیں، وہ حوریں یہاں کمر بستہ بنا دیتی ہیں، وہ جنتی محلات، زمینی خلوت گاہوں کو زندہ ومنور کر دیتے ہیں، قرآن کے کھینچے ہوئے نقشے، وہ میوے، وہ کھانے، وہ راحتیں وہ حور وقصور؛ یہ سب راہ زہد کے توشے ہیں، زاہد کھیلتا ہے اور خوب کھیلتا ہے، ظاہری تعیش سے بیزار یہ دانشور، سچے تعیش کا تعاقب کرتا ہے اور جس دن نتائج آئیں گے، دنیا جانے گی کہ اصل بازی گر یہی تھا۔


مسیح العلوم میں تدریس کے دوران ہیگڈے نگر میں رہائش تھی، مسجد ابرار سے وابستہ تبلیغی احباب میں ایک ساتھی ذکر حور کے دلدادہ تھے، بیان ہو یا عام خاص ملاقاتیں، وہ انجام کار حوروں پر آجاتے اور داستان کو خوب پھیلاتے، ادھر یہ ادا قبول ہوگئی، ایک روز فجر کے بعد خصوصی ملاقات میں پسندیدہ موضوع میں سرشار تھے کہ بلاوا آگیا اور عین ذکر حوراں میں جاں بحق ہوئے، حور وقصور کے باب میں نیک فالی کی یہ خوب صورت ودل چسپ مثال ہے، سچ ہے کہ زندگی جس ڈھب پر گذرتی ہے، موت بھی اسی رنگ میں آتی ہے، بار الٰہا! حیات میں قابل اتباع اور ممات میں لائق رشک بنا، آمین، یا رب العالمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے