وارِداتِ رمضان: 16
قیامت کتنی قریب ہے؟
تحریر:
مولانا محمد فہیم الدین بجنوری
استاذ دار العلوم دیوبند
16 رمضان 1444ھ 8 اپریل 2023ء
برج خلیفہ دبئی نے ہمارے حلقوں میں زیادہ تعارف، مقبولیت اور دل ربائی حاصل کی؛ کیوں کہ وہ جغرافیائی اور تہذیبی رسائی میں واقع ہے؛ ورنہ فلک نما عمارتوں سے جہانِ نو کا چپہ چپہ معمور ہے اور درجۂ اول کے لیے تقابل بھی عروج پر ہے۔
کرۂ ارض کی یہ تزئین کاری دو وسوسوں میں مبتلا کرتی ہے، ایک وقت خیال آتا ہے کہ قدرتی اور انسانی؛ دونوں سطح پر ترقی کی جدید ترین مثالیں قائم کرنے والی دنیا شباب وکمال کی طرف جارہی ہے، بڑھاپے اور زوال کے آثار تو دور دور تک نظر نہیں آتے! جب کہ فطری وقدرتی انجام دور آخر کے ضعف وناتوانی سے گذرتا ہے۔
دوسرا خلجان یہ بھی ہوتا ہے کہ کائنات تو من جانب اللہ حسن لازوال سے آراستہ تھی، نگاہیں جس سمت اٹھ جائیں واپس نہیں آتیں، کہکشائیں ہماری بصارتوں سے اپنی عددی قوت میں اضافہ کر لیتی ہیں، اس پر انسانی دریافتوں نے قیامت ڈھائی ہوئی ہے، رقبۂ زمین خدائی وانسانی صنعت کاری کا مرقع بنی ہوئی ہے اور یہ سفر غیر محدود طور پر جاری بھی ہے، تو کیا ایسی دل کشی بھی شکست وریخت کا شکار ہوگی؟
دوسری تشویش کا جواب عالم اصغر یعنی انسان میں ہے، قطرۂ منی اور خون بستہ سے گذرنے والا یہ انسان کس درجہ حسین نقش اختیار کرتا ہے! جوان ہوتے ہوتے تصوراتی رعنائیوں کو سمو لیتا ہے، دوشیزائیں کیا سماں بناتی ہیں! لیکن دل فریبی کے کتنے ہی استعارے آئے دن، وقت شباب جاں بحق ہوتے ہیں اور حسن کی داستانوں کو ناتمام چھوڑ جاتے ہیں، پھر عالم اکبر کی تباہی عین جوانی پر کیوں حیران کن ہو؟
اول الذکر وہم کا دفعیہ آیتِ بالا میں ہے، یعنی قیامت کے لیے غفلت کا سیاق طے ہوا ہے؛ چناں چہ اس کی نزدیکیاں بڑھتی رہیں گے اور لوگ غفلت کی تہہ میں دھنستے رہیں گے؛ تا آں کہ وہ آ پکڑے گی اور یہ ہنوز آغوش غفلت میں ہوں گے۔
یہ نکتہ دوسرے مواقع پر مزید واضح ہے وہ فرماتے ہیں کہ قیامت اچانک آئے گی، تخلیقی کارگزاری کا سب سے بڑا سرپرائز قیامت ہے، اس کے اس رنگ میں فرق نہ آئے اس کے لیے قرب کی رفتار کے ساتھ تعمیری شکوہ، صنعتی انقلاب اور سائنسی دریافت کے سفر کو بھی تیز گام کردیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمثیل میں کپڑے کی دوکان کا ذکر فرمایا کہ تاجر کپڑا دکھاتا ہی ہوگا کہ سائرن گونج اٹھے گا، اس وقت کپڑے کی تجارت قابل رشک ہوا کرتی تھی، آج اس کی تعبیر سعودی عرب کا مجوزہ نیوم شہر ہے، پانچ سو ارب ڈالر کا یہ تجارتی منصوبہ زندگی کی موجودہ رفتار سے کئی میل آگے رکھا گیا ہے، اس کے مشمولات میں وہ حوالے بھی درج ہیں، جن کا وجود عالم سائنس میں بھی ہنوز افتراضی ہے، تا ہم ملکوں کے سالانہ بجٹ سے بڑا یہ خاکہ دنیا کو جدید دریچے بہ ہر صورت دکھا ئے گا، یہ شہر جس تیز گامی اور آن بان سے تعمیر ہورہا ہے، اس کے سایے میں قیامت کے قیافوں کی کیا گنجائش ہے؟ یعنی قیامت کے سرپرائز سے نیوم شہر کی ہمہ ہمی، نہاں خانوں تک لطف اندوز ہو گی۔
لوح محفوظ میں قیامت کی تاریخ کیا لکھی ہے جبریل بھی نہیں جانتے، کائنات کے "ڈاٹا سینٹر" تک ان کی رسائی بھی محدود ہے، غالبا اسی لیے شب قدر میں، قرآن کریم یک بارگی ان کے حوالے کر دیا گیا اور لوح محفوظ سے بیت المعمور منتقل ہوا، ورنہ وہ تئیس سال لوح محفوظ بار بار جاتے، جہاں راز ہائے سر بستہ مخزون ہیں۔
آیتِ عنوان کہتی ہے کہ قیامت قریب ہے؛ رب العزت کے یہاں ایک دن ہزار سالہ ہے، قرب سے اس نے ڈیڑھ دن مراد لیا ہے یا دو؟ یہ اس کے خاص الخاص رازوں میں ہے، علماء کی آراء مختلف ہیں، کچھ اسے دور دیکھتے ہیں؛ جب کہ ایک طبقہ اس کی آہٹ محسوس کر رہا ہے، ایک ذی علم اور صاحب دل کو میں نے اس بابت پر امید پایا کہ ان کو حضرت مہدی کی معیت میسر آسکتی ہے، ہمارے عہد میں علمی حلقوں کی سب سے بڑی شخصیت نے ذاتی مجلس میں فرمایا کہ قیامت کی تمہید میں جو خسف ومسخ اور زلزلے آئیں گے، ترکی کا حالیہ زلزلہ اس کا فاتحۃ الباب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا مغرب یہی ہے، گویا اب مشرق کی باری ہے، عہد آخر کی نشانیاں ذہن نشین کرانے والا پیغمبر کورونا کا اشارہ نہ دے؛ یہ بات کسی درجہ بعید ہے؛ کیوں کہ کورونا نے کل عالم کو جس طرح زیر وزبر کیا اس کے سامنے طاعون عمواس سمیت ہر تباہی کا پیمانہ کم تر ہے، اس لیے چھ خاص علامتوں میں موتان کا لفظ اس کا محمل ہو سکتا ہے۔
0 تبصرے