65a854e0fbfe1600199c5c82

نماز پیمانۂ دین ہے



  وارِداتِ رمضان (قسط: 18)

نماز پیمانۂ دین ہے 


تحریر:

مولانا محمد فہیم الدین بجنوری قاسمی 

استاذ دار العلوم دیوبند 

18 رمضان 1444ھ 10 اپریل 2023ء 


سورۂ مؤمنون میں ارشاد باری ہے:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (2)


بعض وقت کوئی وظیفہ یا ورد، خاص کیف وسرور پیدا کرتا ہے، طبیعت سرشار ہو جاتی ہے اور قرب کا احساس لطف اندوز کرتا ہے، روح کی یہ بالیدگی اور ذائقے کی حلاوت مذکورہ وظیفے اور عبادتِ نماز کے ما بین موازنہ کرنے لگتی ہے، دور لاشعور میں وہم گذرتا ہے کہ قرب خداوندی اور تعلق ربانی میں یہ وظیفہ تو نماز سے زیادہ مؤثر، مقدم اور فائق ہے!


لیکن یہ راہِ سلوک کی گھاٹی ہے، سالکِ نو، عارضی تاثر سے دھوکہ کھاتا ہے؛ چوں کہ پائیدار مقام اور گذرتے ہوئے حال میں تمیز اور فرق کی نگاہ کوتاہ ہوتی ہے؛ اس لیے فرق مراتب میں نا رسائی کا شکار ہو تا ہے۔


نماز، وہ ادا ہے جو عبادت کے طور پر پروردگار کی آخری اور حتمی پسند ہے، نماز طوفان برپا کرتی ہے اور اسے روکتی بھی ہے، سیلاب اس ہیئت کے تابع وفرماں بردار ہیں، عرش اس وضع کو بوسہ دیتا ہے، آسمانوں میں اس کا استقبال نئی دلہن کے معیار پر ہے، فرشتے اس کی ناز برداری میں بر سر پیکار رہتے ہیں، اس کا مقام سدرۃ المنتہی ہے، اس کی نوک وپلک درست کرنے کے لیے، تاریخ کائنات کے سب سے بڑے ملکوتی سفر کا اہتمام ہوا، اس تحفے سے سرفرازی کے لیے محبوب کو قربت خاص عطا ہوئی۔


 یہ عمل تا قیامت بندۂ مؤمن کی معراج بن گیا، نماز پڑھو اور ملکوت کی سیر کرو، نیت باندھو اور سدرۃ المنتہی تک پرواز کرو، قراءت کرو اور فرشتوں کے نیاز سے لبوں کو معطر کرو، رکوع کرو اور بیت المعمور کی صف کا حصہ بن جاؤ، سجدہ کرو اور رب کے بوسوں کا تجربہ کرو، قعود میں تجلیات کو بام عروج پر دیکھو؛ تا آں کہ سلام پر سفر کے اختتام اور وطن مالوف واپسی کا احساس جسم وجان کے لیے سنسنی خیز بن جائے۔


نماز عجب معیار دین ہے، ہمارے ظاہر یعنی اسلام کا پیمانہ بھی یہی ہے اور باطن یعنی ایمان کی کسوٹی بھی اسى میں نہاں ہے، پابندی واہتمام اگر مسلمانی کی سند ہے تو خشوع وکیف، ولایت وبزرگی کا سانچہ ہے، کون دینی پس منظر میں کہاں کھڑا ہے؟ اس کا فیصلہ نماز کرے گی، اپنا دینی قد جاننے کے لیے خارجی عوامل دیکھنے کی ضرورت نہیں، کہنے والوں سے تعرض نہ کرو، اپنی نماز کا جائزہ لو، آپ کا دین، اپنی قوت، تحریک، غذا، شباب وعروج اسی نماز سے کشید کرتا ہے، پژمردہ نماز آپ کے دین کو درکار سروقد اور رفعت وبلندی عطا نہیں کر سکتی۔


خشوع کا تعلق ظاہر اور باطن سے یکساں ہے، کمال کی تحصیل کے لیے دونوں رخ برابر ہیں، یہی وجہ ہے کہ علماء نے نماز رسول کی تحقیق میں زندگیاں نذر کردیں، رفع یدین کی بحثوں کی تضحیک کرنے والے برساتی مفکرین، ایک عالم کا نام بتائیں جو محقق ہو اور ان مسائل کی زلفوں کو سنوارنے میں عمر عزیز صرف نہ کی ہو، اگر حیض ونفاس کے مسائل میں الجھنا عبث ہے، تو آپ کے جملہ خواص عبث کار قرار پائے، کس قدر آسان ہے دینی رموز کی تخفیف، نماز تو اصلِ دین ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک صحابی کو دوزخ کا انتباہ صرف اس لیے دیا تھا کہ وضو میں ان کی ایڑی خشک رہ گئی تھی، مولویوں کو لعنت بھیجنے والو! یہ صدیق اکبر کے جانشین ہیں، جنھوں نے کہہ دیا تھا کہ میں عہدِ نبوی کی ایک رسی سے بھی سبک دوش نہیں ہو سکتا، میرے جیتے جی دین میں قطع وبرید کیسے ممکن ہے!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے