65a854e0fbfe1600199c5c82

 ذکر رحمت ربك عبده زكريا


جو قصہ ہم آپ کو بیان کرنے لگے ہیں، یہ تذکرہ ہے اس رحمت کا جو تمہارے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔


اس آیت میں چند چیزوں کو اکٹھا مختصر سے جملے میں بیان کر دیا گیا ہے۔ 


1:ذکر

2:رحمت

3: آپ کا رب

4:عبدیت

5:زکریا


سورت مریم کو سورتِ رحمت بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی یہ واحد سورت ہے جس کی بارہ آیات میں انیس بار رحمت کا ذکر ہے۔ اس سورت کی ابتداء بھی رحمت سے ہو رہی ہے اور انتہا بھی ۔


مقصود در اصل رسول اللہ ﷺ کو مکی زندگی میں تسلی اور حوصلہ دینا ہے جیسا کہ پہلا لفظ ہی "ذکر" ہے جو "ذکریٰ (یعنی نصیحت اور تسلی کے سامان) " کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اے نبی ! ابھی فی الحال آپ مشکلات کے بھنور میں ہیں لیکن عنقریب آپ پر (مدنی زندگی میں) ایسی رحمت ہوگی کہ آپ فاتح بن کر اسی مکہ کی طرف لوٹیں گے جہاں آج آپ کو تنگ کیا جاتا ہے، قتل کے منصوبے بنائے جاتے ہیں، اذیتوں سے گزارا جاتا ہے۔ 


ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سینہ میں کچھ امیدیں تھیں جنہیں وہ پورا ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ اب کبھی اللہ کی رحمت ہو کہ وہ امیدیں بر آئیں۔ اس کےلیے کچھ انبیاء کے قصے اس سورت میں بیان کیے گئے کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس کےلیے آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جیسے حضرت زکریا نے کیا کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں اولاد کی امید پالی تھی جب ان کا معاشرہ کرپٹ ہوچکا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو میری اولاد میں سے ہو اور وہ آل یعقوب کے علوم نبوت کی وراثت کو آگے لے کر چلے۔


حضرت زکریا مانگتے رہے اور مانگتے رہے۔ انہیں اپنے رب کی رحمت کا پورا یقین تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میری امیدوں کی تکمیل صرف ایک ہی ذات کر سکتی ہے اور وہ میرا رب ہے۔ تنہائیوں میں پکارا، محرابوں میں سجدہ ریز ہوئے۔ امید پوری نہیں ہورہی لیکن مایوس بھی نہیں ہو رہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے جواب آنا بھی رحمت ہے اور جواب نہ آنا بھی رحمت ہے کہ مجھے قریب کیا جا رہا ہے۔


 پھر ایک وقت آیا کہ رحمت الہی پورے جوش  سے زکریا کی طرف متوجہ ہوئی اور انہیں یحیی جیسے بیٹے کی صورت میں اولاد سے نوازا گیا جو اپنے آباء و اجداد کی علمی وراثت کے حامل و عامل بنے۔ 


اسی رحمت کے ذکر سے رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ کو بھی ایک دن اتنی روحانی اولاد مل جائے گی کہ مکہ کی یہ تنگ فضائیں  آپ کے نام محمد کے اجالے سے دمک اٹھیں گی اور آپ کے علوم کو آگے لے کر چلنے والے کروڑوں افراد پیدا ہوں گے۔ چنانچہ بعد میں ایسے ہی ہوا۔ 


اس آیت میں رب کی نسبت محمد صلی الله عليه وسلم کی طرف کرنے میں یہی حکمت ہے کہ آپ کی ذات اقدس کو تسلی ہو۔ اور جب میں یہ آیت پڑھتا ہوں تو رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کے واسطے سے یہ تسلی اپنی طرف متوجہ ہوتے پاتا ہوں۔ کچھ میری زندگی کی بھی امیدیں ہیں جو میرا رب پوری کرے گا اور ضرور کرے کیونکہ میں (حضرت زکریا کے الفاظ میں) شقی یعنی نامراد و مایوس نہیں ہوں۔


اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ 


اللہ کی رحمت کا مستحق ہونے کےلیے آپ کے عہدے، منصب، اسٹیٹس، پروفیشن، فیلڈ،قوم، حسب ونسب، علاقہ اور صلاحیت وغیرہ کو نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ جو جس قدر اپنے رب کو کسی بھی طریقے سے راضی رکھنے کی کوشش کرے گا وہ اسی قدر رحمت کی برسات میں ہو گا۔ کیونکہ حضرت زکریا بڑھئی تھے یعنی لکڑی کا کام کرنے والے۔ لیکن ان کی عبدیت کو دیکھ کر اللہ کی رحمت نے اُن کے قصے ہمیشہ والی کتاب میں درج کر دیے جو جنت میں بھی پڑھے جاتے رہیں گے۔


یہ بھی معلوم ہوا کہ 


اللہ تعالی کی رحمت کو حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ عبادت ہے یعنی ہر دم اللہ کا عبد(غلام) بن کر رہنا۔ دنیا والوں کے ہاں غلام ہونا سب سے حقیر درجہ ہے لیکن اللہ کے ہاں اونچا عہدہ اور منصب۔ یہاں حضرت زکریا کےلیے رحمت اور ان کی عبدیت کا ذکر ہے۔ جو جتنا عبادت میں آگے ہوگا، اتنی ہی رحمت کا مستحق بنے گا۔


تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ


حضرت زکریا علیہ السلام کو اللہ تعالی سے اولاد مانگتے مانگتے کئی سال گزر چکے تھے لیکن وہ مایوس نہیں تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ جس ذات سے میں نے اپنی امید جوڑ رکھی ہے، وہ ضرور ایک دن اپنی رحمت خاصہ میری طرف متوجہ کرے گا اور نیک اولاد سے نوازے گا۔ پھر اللہ نے رحمت کی جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ اُس ذات سے امید رکھو جو ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ تمہاری امیدوں کو مرنے نہیں دے گا۔ 


چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ 


یہاں رحمت کا ذکر پہلے ہے اور حضرت زکریا کی آہ و زاری اور دعا کا بعد میں۔ معلوم ہوا کہ ان کا تضرع اور اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرنا بھی در اصل رحمت الہی کے سبب ہی تھا۔یعنی پہلے اللہ اپنے بندے پر رحمت کرتا ہے ، پھر اسے کچھ مانگنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔


محمد اکبر 

17 مئی 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے