65a854e0fbfe1600199c5c82

حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتِ دین



 حضرت نوح علیہ السلام نے پوری زندگی اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ بیٹا جس راستے کا تم نے انتخاب کیا ہے، اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں۔ ایسے راستے پر چلنے والوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ اس راستے کے مسافر جب پکڑ میں آتے ہیں تو بہت چیختے اور چلاتے ہیں لیکن اس وقت پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ 


ایک نبی جو ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو ہر موقع پر ہر انداز سے توحید کی دعوت دیتا رہا ، اس نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کےلیے کون سا داعیانہ انداز اور اسلوب نہ اپنایا ہوگا؟؟


کتنی دفعہ ایسا ہوا ہوگا کہ کنعان غلط راستے پر قدم رکھتا ہوگا تو شفیق والد آگے دیوار بن کر کھڑ ہو جاتا ہوگا اور کہتا ہوگا بیٹا!

مت چل اس راستے پر۔ یہ راستہ اندھیر نگری کی طرف جا رہا ہے۔ یہ راستہ بھڑکتی آگ اور چیخ و پکار کی وادی میں تجھے پھینک دے گا۔ یہ راستہ خون اور پیپ کی ندیوں تک پہنچتا ہے۔ یہ راستہ تمہیں اُس دلدل میں گرائے گا جہاں سے تمہاری آہیں سننے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ 


ایک شفیق والد جب "میرا پیارا بیٹا، میرا پیارا بیٹا " کہہ کہہ کر پکارتا ،نصیحت کرتا، ڈراتا اور محبت سے بات کرتا ہوگا اور بیٹا جواب میں یکلخت انکار کر دیتا ہو گا تو باپ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟؟ یہ وہی جان سکتا ہے جس کی اولاد نافرمان بن جائے ۔



وقت گزرتا رہا، باپ سمجھاتا رہا، بیٹا انکار کرتا رہا اور پھر اللہ کی طرف سے سرکشوں کے سر سے پانی گزارنے کا وقت آ پہنچا۔ 


باپ کشتی بنا رہا ہے، بیٹا دوستوں کے ساتھ مل کر تمسخرانہ انداز میں ہنستا ہے۔ باپ لکڑی میں کیل ٹھوکتا ہے لیکن دل بیٹے کے ایمان کےلیے دھڑکتا ہے۔ کشتی تیار ہو جاتی ہے اور تنور سے پانی ابلنا شروع ہو جاتا ہے۔ آسمان اور زمین اپنے پیٹ کا سارا پانی سطح ارض پر ڈال دیتے ہیں۔ 


حضرت نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہو کر چند گنے چنے اہل ایمان اور جانوروں کو حکم دیتے ہیں تو وہ سفینہ نجات میں سوار ہوجاتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام ایک طرف پانی کی موجوں میں پہاڑوں جیسی کشتی کو چلتے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف باغی اور مشرک بیٹے کو دیکھتے ہیں جو باپ کے مخالف کمیپ میں تکبر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ شفیق باپ سرکش بیٹے کو ایک بلند آواز دیتا ہے جس میں نرمی بھی ہے، شفقت بھی ہے، حکم بھی ہے، نہی بھی ہے، ادب بھی ہے اور تحذیر(یعنی برے انجام سے ڈرانا) بھی ہے۔ 


 يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلاَ تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ



او میرے پیارے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ۔ کافروں کے ساتھ نہ رہو۔ 


بیٹا مسبب الاسباب سے نظر ہٹا کر اسباب کو دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں کسی بلند و بالا پہاڑ پر جا ٹھہرتی ہیں جسے وہ ملجا و ماوی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ وہ اپنا رخ موڑتا ہے اور باپ کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے:


میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ 


نوح علیہ السلام یہ بات سنتے ہیں تو کہتے ہیں:


بیٹا! آج اللہ کے حکم سے کوئی کسی کو بچانے والا نہیں ہے سوائے اس کے جس پر وہ ہی رحم فرما دے۔ 


اتنے میں باپ بیٹے کی اس گفتگو کے درمیان ایک موج حائل ہو جاتی ہے اور کچھ ہی لمحے بعد بیٹے کی لاش سطح آب پر تیرتی نظر آتی ہے۔ 


یہاں ہمارے لیے جو اسباق ہیں ، ان کو مختصر انداز میں دیکھتے ہیں۔


1: بيٹا جتنا مرضی نافرمان ہو جائے ، باپ آخری وقت تک اس کے لوٹنے کا انتظار کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ یہ صرف باپ ہی نہیں بلکہ ہر اُس انسان کو دوسرے انسان کے لوٹنے کا انتظار کرنا چاہیے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ 



2: باپ جب نافرمان بیٹے سے بھی گفتگو کرے تو اے میرے پیارے بیٹے سے ابتداء کرے کیونکہ یہاں صرف "ابنی" نہیں ہے بلکہ "بُنَیَّ" ہے جو پیار اور محبت پر دلالت کرتا ہے۔ 


پھر ابن کی نسبت اپنی طرف کی ہے یعنی میرے بیٹے، پھر عربی میں کسی کو پیار سے بلانے کےلیے تصغیر لائی جاتی ہے تو وہ بھی یہاں موجود ہے۔ گویا ایک لفظ میں جتنا پیار جمع کر سکتے تھے، وہ جمع کیا اور آواز دی۔



3:باپ کے انداز گفتگو سے محبت اور شفقت نکھر کر سامنے آنی چاہیے۔لیکن محبت میں آ کر بیٹے کو مستقبل کے خطرات سے نا واقف بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔


4: جس سے آپ کو محبت ہو اور وہ آپ کی بات نہ مان رہا ہو تو اسے مصیبت میں دیکھ کر آپ کا دل سخت نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ نوح علیہ السلام کی طرح آخری وقت تک اس کےلیے نرم گوشہ رکھیں۔



5: ان جانوروں کی طرح بن جائیں جنہیں حضرت نوح نے صرف ایک بار کشتی میں سوار ہونے کا کہا تو وہ اللہ کا نام لے کر سوار ہوگئے نہ کہ ان سرکش انسانوں کی طرح جنہیں ساڑھے نو سو سال دعوت دیتے رہے لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی۔ 



6: جب آپ کے دوست، والدین، بیوی، شوہر،بہن، بھائی، استاد، طالب علم ،ملازم، بوس یا کوئی اور آپ کو گناہوں سے روکے، آپ کے راستے پر دیوار بن جائے  اور کہے کہ یار یہ کام نہ کر۔ تو اس کی بات مان لو۔ اس کے ساتھ گناہوں سے بچنے والی کشتی پر سوار ہو جاؤ ورنہ معصیتوں کے سیلاب میں بہہ جاؤ گے اور انجام برا ہوگا۔  نصیحت کرنے والے شخص کو عذر پیش مت کرو، اسے صوفی کا طعنہ مت دو اور جو اسباب آپ کو بچاتے نظر آرہے ہیں ، ان سے دور ہو کر مسبب الاسباب کے قریب ہو جاؤ ورنہ نہ تمہیں کوئی دوست بچا پائے گا اور نہ کوئی بلند وبالا پہاڑ۔ 



7: جب باپ آپ کو "میرے پیارے بیٹے" کہہ کر پکارے تو بدلہ میں آپ بھی حضرت ابراہیم کی طرح 


یٰاَبَتِ لا تعبُدِ الشیطٰنَ


حضرت اسماعیل کی طرح 


یٰابتِ افْعَلْ ما تُؤْمَر


حضرت یوسف کی طرح 


یٰاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ ۔۔۔۔۔


یٰاَبَتِ یٰاَبَتِ کہہ کر پکاریں نہ کہ کنعان کی طرح کہ جسے اس کے والد نے یا بُنَیَّ کہہ کر پکارا لیکن اس نے باپ کو پیار سے مخاطب کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔



8: فتنوں اور شرور سے اولاد کی حفاظت ہر باپ کی خواہش ہونی چاہیے۔


9: اولاد کی جسمانی تکلیف اور مصیبت سے زیادہ اس کے ایمان اور نظریات و عقائد کی فکر ہونی چاہیے۔ یہاں اگر آپ غور کریں تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو یہ نہیں کہا :


لا تکن من الغارقین


ان لوگوں میں سے مت بن جو ڈوب جانے والے ہیں۔


بلکہ کہا:


لا تکن مع الکافرین


ان لوگوں کے ساتھ مت ہو جو کفر اختیار کرنے والے ہیں۔


یعنی جسمانی مصیبت کے مقابلہ میں دینی مصیبت کو ترجیح دی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دینی مصیبت یعنی دین اور ایمان سے خالی ہونا ہر مصیبت اور پریشانی سے بڑی پریشانی ہے۔ہم بسا اوقات اپنی اولاد کو ظاہری تکلیف سے تو بچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے نظریات کو سیدھا کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس سے وہ ایسے نقصان میں جا گرتا ہے جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہوتی۔



10: اگر آپ غور کریں تو حضرت نوح نے بیٹے کو ایمان کی دعوت نہیں دی کہ بیٹا کلمہ پڑھ لے اور مسلمان ہو جا۔ اس کے بجائے کافروں کے ساتھ ہونے سے روکا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اب ایمان لانے کا وقت نہیں ہے۔ اب کسی طریقہ سے عذاب الہی سے بچنے کا وقت ہے اور اس کی یہی صورت ممکن ہے کہ میرا بیٹا ہماری کشتی میں سوار ہو جائے۔ کیونکہ کشتی میں موجود لوگوں کے نہ ڈوبنے کا وعدہِ الہی تھا۔حضرت نوح چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح کافروں سے دور ہو جائے اور ہمارے پاس آ جائے۔ بعد میں جب عذاب الہی سے کشتی والے بچیں گے تو اسے ایک نیا ایمانی ماحول میسر ہوگا ۔ ممکن ہے اس ماحول کو دیکھ کر بعد میں ایمان لے آئے۔ اسی لیے 


لا تکن من الکافرین کی جگہ 


لا تکن مع الکافرین کہا۔


لیکن جب ایمان مقدر ہی نہ ہو تو پھر کیسے کوئی نجات کی کشتی میں سوار ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ اُس شخص کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش ضرور کریں جو آپ سے دور ہے۔



11: اولاد کو بسا اوقات باپ کی شفقت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ میں جب جب قرآن کی یہ آیت پڑھتا ہوں تو نم دیدہ ہو جاتا ہوں کہ جب اللہ تعالی پہلے ہی حضرت نوح کو وحی کرکے بتا چکے تھے کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ اب تک ایمان لا چکے ہیں ، ان کے سوا اب کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔لہذا جو  حرکتیں یہ لوگ کرتے رہے ہیں ، تم ان پر صدمہ نہ کرو۔(آیت 36) تو پھر بھی حضرت نوح علیہ السلام نے جب بیٹے کو دیکھا تو کہا کہ بیٹا! میری بات مان لے اور کشتی میں سوار ہو جا(آیت 42) ۔


 کتنی محبت، امید اور پیار ہے اس جملے میں!! اللہ اکبر



12: آپ سے محبت کرنے والا آخری وقت تک آپ سے امید رکھتا ہے، کنعان کی طرح اس کی امید ٹوٹنے مت دینا۔



13: اپنا شعار اور طریقہ بنا لیں کہ جس کسی سے آپ کی دوستی ہو خواہ بیٹا ہو، پڑوسی ہو، شوہر ہو، بیوی ہو، سہیلی ہو، جب کبھی اسے برائی کی طرف جاتے دیکھو تو سفینہ نجات( تقوی ) کی دعوت دو اور کہو کہ آ جا میرے دوست، ہمارے ساتھ سوار ہو جا۔



14: جس طرح حضرت نوح کے ساتھ آخر تک چلنے والے کچھ ہی گنے چنے لوگ تھے، ایسے ہی آپ کے ساتھ سفر کرنے والے بھی کم ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ میرے پاس مجمع کیوں نہیں۔ اگر آپ ساڑھے نو سو سال محنت کریں اور آپ کے پیچھے اسی نوے افراد ہی کھڑے ہوں جن کا سب کچھ آپ ہیں ، جو آپ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں تو آپ کامیاب ہیں۔




تحریر کے طویل ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو اس آیت کے ابتدائی حصے پر بھی بات کرتے۔ فی الحال انہی باتوں پر عمل کی توفیق نصیب ہو جائے تو بڑی بات ہے۔ 



مولانا محمد اکبر

19 مئی 2023ء

===============

ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ۖ﴿ۚ۲﴾

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے