65a854e0fbfe1600199c5c82

سورۂ نحل کے کچھ الفاظ


 سورت نحل کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر روح میں ایک خاص قسم کا لطف، مٹھاس، سکون، تازگی اور نشاط و سرور پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی ان الفاظ کا تلفظ ہی آپ کے باطن کو آسودگی دیتا ہے، دل و دماغ اور پورے وجود کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے سخت گرمی کے موسم میں اچانک سے گھنی چھاؤں اور ٹھنڈی ہواؤں میں آ گئے ہوں۔


 یہ خوبصورت الفاظ ہمارے باطن میں حسن وجمال کی قدر شناسی پیدا کرتے ہیں اور جمالیاتی حس کو بیدار کرتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ اپنے اندر جمال کا ایک عالم بیکراں لیے ہوئے ہیں۔ ہر لفظ میں تازگی ہے، نیا پن ہے، پر اسرار اور دلفریب اجنبیت ہے۔ہر لفظ کے معنی کو سمجھ کر جب اس کی گہرائی میں اترتے ہیں تو اپنے وجود کو اس کے نور کی کرنوں سے شرابور پاتے ہیں۔ 


آئیں! صرف سورت نحل کے چند الفاظ دیکھتے ہیں۔


جمال:


 اس کا معنی ہے رونق ۔ یہ لفظ در اصل ہمارے باطن میں ایک رونق پیدا کر دیتا ہے۔ کوئی بھی اچھی چیز دیکھ کر دل کا مچلنا، کوئی بھی حسین منظر دیکھ کر دل کا کھنچے چلے جانا، کوئی بھی خوبصورت ذرہ دیکھ کر روح کی گہرائیوں میں ہل چل مچ جانا۔


ہر طرف جمال ہی جمال ہے۔ ہزاروں دل افروز اور دلفریب مناظر ہیں جن کے جمال کو دیکھ کر نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔


تُرِیْحُوْنَ:


یہ لفظ اِرَاحَة سے بنا ہے اور اراحۃ کا معنی ہوتا ہے راحت محسوس کرنا۔ اہل عرب جب اونٹوں اور چوپاؤں کو چرا کر واپس ان کے باڑے میں آرام کےلیے لاتے تھے تو اسے "اراح الابل۔۔۔۔۔" کہا جاتا تھا۔ اور اس لفظ کی اصل "روح "بمعنی "جذبہ اور حوصلہ" ہے۔


جب اس لفظ تُرِیْحُوْنَ کو پوری روح کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو آپ کی روح میں ایک کشادگی، سکون، حوصلہ اور جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ اور آپ ایسے ہی اطمینان و لطف محسوس کرتے ہیں جیسے دن بھر پہاڑوں پر چرنے والا جانور تھک ہار کر شام کو سکون کا سانس لیتا ہے تو اسے مزہ آتا ہے۔ 


تَسْرَحُوْن


 یہ لفظ "سرح" سے بنا ہے اور سرح کے لفظوں میں سہولت، آسانی اور نرمی پائی جاتی ہے جیسے عربی میں کہتے ہیں:" افعل ذلک فی سراح " یعنی میں وہ کام آسانی سے کرتا ہوں۔ یہ لفظ بھی آپ کے اندر نرمی پیدا کرتا ہے اور آپ کو زندگی کے ہر کام کو آسانی سے ہینڈل کرنے میں مدد دیتا ہے۔


طَرِیًّا:


 یہ لفظ " طَرَاوَۃ " سے نکلا ہے جس کا معنی ہے تر وتازہ۔ یہ لفظ نہ صرف ہمارے باطن میں تروتازگی پیدا کرتا ہے بلکہ ہر چیز تروتازہ کھانے کی رغبت بھی ڈالتا ہے کیونکہ ہر چیز تازہ حالت ہی میں لذیذ اور مفید ہوتی ہے۔ باسی چیز ضرر رساں ہوسکتی ہے۔


یَتَفَیَّؤُ:


 یعنی درخت وغیرہ کا سایہ لینا ۔ تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں میں آنا۔ یہ لفظ مجھے ہمیشہ مادیت کی تپتی دھوپ میں روحانیت کی ٹھنڈی چھاؤں میں آنے کی دعوت دیتا ہے۔ 


خَالِصاً سَائِغاً:


 یعنی صاف ستھرا اور خوشگوار۔


خالص کا معنی ہوتا ہے جس میں کھوٹ نہ ہو،جس کا رنگ صاف ہو، اخلاص اس مکھن کو کہتے ہیں جو تلچھٹ سے جدا کر لیا جائے۔ جب کسی چیز پر سے کھوٹ اور آمیزش وگندگی وغیرہ صاف کر لی جائے تو اس کے لیے اخلص الشیئ کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ یہ لفظ در اصل ہمارے اندر کو کھوٹ، گندگی، نجاست اور بری چیزوں سے پاک صاف کرتا ہے۔


دوسری طرف اس کے ساتھ سائغا کا لفظ ہے جس کا معنی ہوتا ہے بآسانی حلق سے اترنے والا، یعنی ایسا زبردست کھانا جس کو آپ مزے لے لے کر کھائیں یا پیئیں اور وہ سہولت و نرمی کے ساتھ حلق سے نیچے اتر جائے۔ یہ لفظ ہمارے باطن کو خوشگواری اور روح کو شیرینی و مٹھاس بخشتا ہے۔ سائغ قابل ہضم چیز کو بھی کہا جاتا ہے۔ ایسی چیزیں کھائیں جو ہضم ہوجاتی ہیں، تاکہ آپ کی صحت رہے۔


یہ دونوں لفظ مجھے دودھ کی طرح خالص اور مزیدار و خوش گوار بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ جو لوگ میرے اخلاق کا پانی پیئیں، انہیں محسوس ہو کہ ہم ایک خالص اور صاف ستھرے دل والے شخص سے بات کر رہے ہیں۔


سَكَرًا:


 شراب یا کوئی نشہ آور چیز یعنی ایسی چیز پینا جس کے بعد آپ نشہ میں چلے جائیں۔شراب کا نشہ حرام ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا نشہ ، قرآن پڑھنے کا نشہ مطلوب ہے۔ یہ لفظ آپ کو روحانی طور پر سکران یعنی محبت الہی کے نشے میں چور اور مدہوش بنا دیتا ہے۔


رِزْقًا حَسَنا:


 اس کا معنی ہے پاکیزہ رزق۔


 بے شک پاکیزہ رزق ہی آپ کے دل میں حب الہی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ جس کے خون میں رزق حسن اور رزق طیب کے ذرات شامل ہوتے ہیں، وہ اسی قدر اللہ کا دوست اور باطن میں حسین و طیب ہوتا ہے۔


رَغَدًا:


 یہ لفظ رغیدہ سے نکلا ہے یعنی (فرنی کی طرح) دودھ اور آٹے کا پتلا حلوہ۔مکھن کو بھی کہتے ہیں۔اور "عیشة رغد" ایسی زندگی کو کہا جاتا ہے جس میں فراخی، آسودگی اور آرام ہو یعنی کمفرٹیبل لائف۔


 یہ لفظ جنت والی زندگی کے آرام دہ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور مجھے دعوت دیتا ہے کہ میں اپنی زندگی کو خوشحال رکھوں۔ 


بہت دفعہ ہم نے خواہ مخواہ کی مصیبیتیں اور ٹینشنیں پالی ہوتی ہے۔ انہیں اپنی زندگی سے نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک "عیشة رغد" زندگی گزاریں۔


مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہ:


 اس کا معنی ہے مختلف رنگوں والا یعنی جس میں تَنَوُّعْ ہے۔


اپنی طبیعت اور مزاج میں تنوع پیدا کریں۔ اپنے رہن سہن، بات چیت ، مزاج و خصلت ہر چیز میں تنوع پیدا کریں۔ آپ کے مختلف رنگ ہوں۔ اگر آپ شوہر ہیں تو اس کا رنگ صرف بیوی پر نظر آئے۔ اگر بھائی ہیں تو اس کا رنگ بہن پر نظر آئے۔ اگر پرنسپل یا کمپنی کے بوس ہیں تو اس کا رنگ انہی شعبوں سے متعلق لوگوں پر نظر آئے۔ اگر آپ گھر میں بھی اپنی بوسیت کا رنگ دکھائیں گے تو بیوی کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ 


اپنی پڑھائی اور سوچ میں تنوع پیدا کریں۔

اپنے دوستوں اور جان پہچان والوں میں تنوع لائیں۔

 اگر اللہ تعالی نے مال دیا ہے تو کپڑوں اور جوتوں میں مختلف رنگ دکھائیں لیکن اللہ کے شکر کے ساتھ۔ ورنہ کئی مرتبہ ظاہری رنگ انسان کے باطن میں روحانیت کو ختم کر کے صرف ناجائز رنگینی ہی پیدا کر دیتا ہے۔

رنگینی اختیار کریں لیکن اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر۔


سورت نحل کے یہ الفاظ لغوی معنی کے اعتبار سے جمالیات سے بھر پور ہیں۔ جب جب پڑھا، دل و دماغ اور روح و قلب نے سرور حاصل کیا۔ 


محمد اکبر

22 مئی 2023ء


اصحابِ کہف کے تذکرے میں 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے