65a854e0fbfe1600199c5c82

تدبر علمی اور تدبر عملی

 قرآن کریم میں تدبر کی دو قسمیں ہیں۔


تدبر علمی اور تدبر عملی


تدبر علمی سے مراد یہ ہے کہ ہم آیت کے متن میں غور و فکر کر کے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تدبر عملی یہ ہے کہ اُسی آیت کے تدبر علمی میں اپنے عمل کےلیے ہدایت ٹھونڈیں۔ 


یہ بات آپ کو ایک مثال سے سمجھ میں آجائے گی۔


سورت یوسف میں ہے کہ جب زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ورغلانے اور پھسلانے کی کوشش کی ، دروازوں کو تالے لگا دیے اور کہا کہ اے یوسف ! اب میرے پاس آ بھی جاؤ ناں۔ تو حضرت یوسف نے گناہ کے ماحول سے دوڑ لگانے سے پہلے ایک جملہ ارشاد فرمایا: 


مَعَاذَ اللّـٰهِ ۖ اِنَّهٝ رَبِّىٓ اَحْسَنَ مَثْوَاىَ


اللہ کی پناہ! وہ میرا آقا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔


یہاں "ربی" کا ترجمہ آقا سے کیا ہے۔ آقا سے مراد اللہ تعالی بھی ہو سکتے ہیں اور عزیز مصر بھی۔ 


تدبر علمی:


اگر ہم آیت کے اس چھوٹے سے جملے میں تدبر علمی کریں تو چند باتیں معلوم ہوتی ہیں:


1:  اپنے آقا کےلیے وہ رب کے بجائے "سید" کا لفظ ذکر کر سکتے تھے لیکن رب کا لفظ اس لیے ذکر کیا کہ جس رب نے اپنی نعمت کے ذریعے میری تربیت کی ، جس رب کا تعارف میرے بچپن میں میرے والد نے "یَجْتَبِیْکَ رَبُّک "  اور "اِنَّ رَبَّکَ علیم حکیم" سے کرایا تھا، جس رب نے مجھے کنویں سے نکالا، مصر کے بادشاہ کے گھر میں جگہ دی، گناہ کر کے میں کیسے اس کی نافرمانی کر سکتا ہے؟؟ یہ تو اپنے ربِ حقیقی کی نعمتوں کی ناشکری ہوگی۔


اور اگر رب سے عزیز مصر مراد لیا جائے تو مطلب ہوگا کہ عزیز مصر نے مجھے ٹھکانہ دیا، وہ مجھے کسی اور جگہ بیچ بھی سکتا تھا، کسی جگہ مزدوری کےلیے بھیج سکتا تھا، لیکن اس نے میرے اوپر اعتماد کیا، مجھے اپنے گھر میں رکھا اور اب اگر میں گناہ کروں گا تو یہ اپنے آقا کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہوگی کہ جس کا نمک کھایا، اسی پر وار کیا۔میں یہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس صورت میں، میں ظالم ہوں گا اور ظالم کامیاب نہیں ہوتا۔


2: جب عزیز مصر حضرت یوسف کو لے کر گھر پہنچا تو اس نے بیوی سے کہا تھا:


اَکْرِمِیْ مَثْوَاہُ


اس کو عزت سے رکھنا


جب یوسف علیہ السلام کو عزیز مصر کی عزت میں خیانت کا موقع ملا تو انہوں نے فرمایا: 


اَحْسَنَ مثْوَای


میں یہ گناہ نہیں کر سکتا کیونکہ انہوں نے بچپن میں مجھے ٹھکانہ دے کر عزت دی تھی، آج میں ان کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

 

3: زلیخا نے گناہ کی دعوت دی کیونکہ اس کی جسمانی تربیت تو ٹھیک ہوئی تھی لیکن روحانی کمزور تھی جب کہ یوسف علیہ السلام کی روحانی تربیت مضبوط تھی جیسے کہ سورت یوسف کی ابتدائی آیات میں بتایا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے بچاؤ کا راستہ چنا ۔


4:حضرت یوسف علیہ السلام یہاں گناہ کرنے پر قدرت رکھتے تھے لیکن نہیں کیا اور کہا : اللہ کی پناہ۔ پھر ایک وقت آیا کہ جب اپنے بھائیوں کو ان کے ظلم کی سزا دینے پر قادر تھے لیکن فرمایا: اللہ تمہیں معاف کرے۔ یعنی یوسف علیہ السلام قدرت کے باوجود اپنے اندر کی آگ کو باہر نہیں نکلنے دے رہے اور حوصلہ کیے بیٹھے ہیں۔


5: زلیخا نے اپنی عمارت کے سارے دروازے بند کر دیے تھے لیکن یوسف کے دل میں جو دروازہ اللہ کی طرف کھل رہا تھا، اسے  بند نہ کر سکی۔


6:یہاں اگر عربی جملے میں غور کریں تو آپ کو زلیخا کی بات کے بعد حضرت یوسف کے معاذ اللہ کہنے سے پہلے درمیان میں کوئی حرف "واؤ، فا ، ثم "وغیرہ نظر نہیں آئے گا کیونکہ انہوں نے زلیخا کی گناہ والی بات سن کر (ایک لمحہ سوچے بغیر ) فوراً جواب دیا کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔


7: زلیخا نے کہا کہ ھَیْتَ لَکَ یعنی آ جاؤ یوسف اور حضرت یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ (اللہ کی پناہ ) کیونکہ وہ جانتے تھے "ھیت لک" رسوائی ہے اور "معاذ اللہ" عزت ہے۔


8: حضرت یوسف کو جب ورغلایا گیا تو کہا: مَعَاذَ اللّٰہ

جب عورتوں کے فتنے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تو کہا: رَبِّیْ السِجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ ۔۔۔۔۔


جب جیل کے قیدیوں سے ایمان کی بات کی تو کہا : ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہ عَلَیْنَا 


جب بھائیوں سے ملے تو کہا: قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَیْنَا 


الغرض اللہ کو ہر حال میں یاد رکھے ہوئے ہیں اور "معاذ اللہ" کے الفاظ بھی اللہ کے ساتھ کمال درجے کی تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں کیونکہ یہاں گناہ کرنے کے تمام مواقع جمع تھے کہ حضرت یوسف جوان ہیں اور جوانوں میں شہوت کا جوش ہوتا ہے، شادی شدہ بھی نہیں ہیں ، اجنبی بھی ہیں ورنہ اپنوں کے ساتھ گناہ کرنے سے انسان عموما ڈرتا ہے کہ اگر راز ظاہر ہو گیا تو رشتہ داروں کی نظروں سے گر جاؤں گا۔غلام بھی ہیں  جس کو اپنے مولا اور مولا کی بیوی کی بات ماننی ہی پڑتی ہے، خود بھی خوبصورت ہیں اور زلیخا بھی حسب و نصب، منصب و جمال والی ہے۔ پھر اُسی کی طرف سے گناہ کا مطالبہ بھی ہے جو عموما عورت کی طرف سے  نہیں ہوسکتا اور مرد بھی کہنے سے گبھراتا ہے کہ کہیں عورت انکار ہی نہ کردے لیکن یہاں عورت خود مطالبہ کر رہی ہے۔ پھر مطالبہ بھی بار بار ہو رہا ہے۔ پھر بادشاہ کے گھر میں ہے جو عموما معلوم ہوتا ہے کہ کون بندہ کس وقت کمرہ میں داخل ہوسکتا ہے اور کب تک تنہائی ہے۔ پھر دروازے بھی بند ہیں کہ کوئی بھی شخص بری حالت میں نہیں پکڑ سکتا۔


معصیت کے اس قدر گندے ماحول میں بھی وہ مَعَاذَ اللّـٰهِ ۖ اِنَّهٝ رَبِّىٓ اَحْسَنَ مَثْوَاىَ کہہ کر باہر نکل جاتے ہیں۔


 یہ یوسف علیہ السلام پر اللہ کا خاص فضل اور اپنے والد یعقوب علیہ السلام کی تربیت کا اثر تھا جو انہوں نے بچپن میں لفظ رب سے کی تھی۔ورنہ ایسے موقع پر عام آدمی دھوکہ کھا جاتا ہے سوائے ان کے جن کے دلوں میں اللہ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو۔


9: دوڑ لگاتے وقت انہوں نے جو معاذ اللہ کہا تھا، انہیں کیا معلوم تھا کہ میرے یہ الفاظ ہمیشہ والی کتاب میں لکھ دیے جائیں گے۔


10: برتن سے وہی نکلتا ہے جو اس کے اندر ہو، زلیخا کے اندر سے "ھَیْتَ لَکَ" نکلا اور یوسف کے باطن سے معاذ اللہ۔


11: حضرت یوسف یہاں مشقت میں نظر آ رہے ہیں کہ دروازے بند ہیں ، خَلاص یعنی نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا لیکن اگلی آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا  کہ وہ ہمارے مُخْلِص بندوں میں سے تھے۔ اس لیے ان کےلیے مَخْلَص کا انتظام کر دیا گیا۔


یہ تدبر علمی کے چند نکات آپ کے سامنے رکھے جن میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے لیکن تحریر طویل ہو جائے گی۔


اب اگلی تحریر میں ہم اسی جملے سے تدبر عملی کریں گے اور اپنی زندگی کےلیے اسباق تلاش کریں گے۔(ان شاء اللہ)


محمد اکبر

27 مئی 2023ء


تدبر عملی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے