65a854e0fbfe1600199c5c82

تفسیر اور تدبر میں فرق


 ایک بھائی کا سوال وصول ہوا کہ تدبر اور تفسیر میں کیا فرق ہے؟مثال سے اگر وضاحت ہو جائے تو بہتر ہے۔


جواب میں بتایا کہ تفسیر اور تدبر دونوں الفاظ قرآن کریم میں موجود ہیں تھوڑے سے فرق کے ساتھ ۔ تفسیر کا معنی ہوتا ہے قرآن کریم کے معانی کو کھولنا اور تدبر کا معنی ہے: ان کھلے ہوئے معانی میں مزید غور و فکر کر کے اپنی زندگی کےلیے اسباق نکالنا اور الفاظ کے پیچھے چھپے پیغام تک پہنچنا۔


آئیے! اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔


جب حضرت موسی علیہ السلام مدین پہنچے اور بنات شعیب کے جانوروں کو پانی پلایا اور وہ گھر گئیں تو اپنے بوڑھے والد کو اس نوجوان کے بارے میں بتایا۔ جس پر حضرت شعیب نے حضرت موسی کو گھر بلا لیا اور کہا:


"میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک سے تمہارا نکاح کردوں۔ بشرطیکہ تم آٹھ سال تک اجرت پر میرے پاس کام کرو، پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہوگا، اور میرا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ تم پر مشقت ڈالوں، انشاء اللہ تم مجھے ان لوگوں میں سے پاؤ گے جو بھلائی کا معاملہ کرتے ہیں۔"(القرآن) 


تفسير:


اس آیت میں حضرت شعیب علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اگر تم میرے پاس آٹھ سال تک کام کرو تو میں اپنی ایک بیٹی کا نکاح تم سے کروا دیتا ہوں ۔اس وقت حضرت شعیب نے دونوں بیٹیوں میں سے کسی ایک کی تعیین نہیں کی لیکن جب باقاعدہ نکاح ہوا تو معتین کرکے ہوا۔ اور اجرت پر کام کرنے سے مراد بکریاں چرانا ہے یعنی آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چراؤ گے۔ 


پھر مزید آسانی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ دس سال بھی اجرت پر میرا کام کرنا چاہو تو تمہیں اختیار ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ آٹھ یا دس سال میں سے کوئی ایک متعین کر کے تم پر مشقت ڈالوں۔ اور یہ جو ہمارا معاہدہ ہوا ہے اس میں آپ مجھے بھلائی کرنے والے ، صالح اور نیک لوگوں میں سے پائیں گے۔


تدبر:


اس آیت میں غور و فکر کرنے سے میری زندگی کےلیے جو باتیں معلوم ہوئیں، ان میں سے چند ایک کو مختصر کر کے بیان کرتا ہوں:


1: کسی شخص کے اندر اگر ٹیلنٹ اور صلاحیت ہے تو اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھاؤ۔ جیسے حضرت موسی کے بارے میں لڑکیوں نے بتایا تھا کہ وہ امین اور قوی ہیں توحضرت شعیب نے فورا انہیں اجرت پر رکھ لیا۔ 


2: حیاء اور عفت و پاکدامنی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی جائز طریقے سے مبارک رشتہ میں جوڑ دیتے ہیں جیسے وہ لڑکی حیاء کے ساتھ آئی تھی اور اب یہاں حضرت شعیب ظاہراً اسی لڑکی کا نکاح کروا رہے ہیں۔ 


3: ایک باپ نے جب بیٹی کا مناسب رشتہ دیکھا تو خود ہی بیٹی کے رشتہ کی پیش کش کر دی۔ ہمارے ہاں عموما مرد کی طرف سے رشتہ آنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ (حضرت عمر نے بھی خود اپنی بیٹٰی حفصہ کا رشتہ حضرت ابوبکر اور عثمان رضی اللہ عنہھم پر پیش کیا تھا۔)


4: حضرت شعیب نے دو مدتوں کا اختیار دے کر حضرت موسی کےلیے آسانی کر دی۔ اسی طرح ہر ذمہ دار شخص کو اپنے ماتحت کام کرنے والوں پر حتی الامکان آسانی کرنی چاہیے کیونکہ مزدور بھی آپ کی طرح کا ایک انسان ہے، وہ بھی تھکتا ہے، اکتاتا ہے۔ مزدور گدھا نہیں ہوتا کہ اسے ہر وقت کام میں جوتے رکھو۔


5: حضرت شعیب جانتے تھے کہ موسی جب بکریاں چرا کر گھر آئیں گے تو انہیں میری بیٹیوں کے ساتھ رہنے میں حرج لاحق ہوگی کیونکہ وہ بھی باحیاء تھے اور بنات شعیب بھی۔ اس لیے مناسب سمجھا کہ ابتدا ہی سے نکاح کر دیا جائے تاکہ موسی علیہ السلام (اس وقت نبی نہیں تھے) سکون سے رہیں۔ 


ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اپنی جوان بیٹیوں اور بیٹوں کا جلد رشتہ کروا لیں تاکہ ان کی زندگی میں ٹھہراؤ آئے اور گناہ سے بچا جا سکے ورنہ مخلوط تعلیم اور آفسز کے مخلوط ماحول میں کام کرنے سے بدکاری عام ہوتی ہے جیسا کہ ہر صاحب عقل دیکھ سکتا ہے۔


6: "ان شاء اللہ" کہہ کر بتا دیا کہ آپ طاعت و بزرگی کے جتنے بڑے مقام پر کیوں نہ ہو، اللہ کی مشیت کے محتاج ہیں۔ آپ اگر صالح ہیں تو اللہ کی مشیت سے ہیں۔ اس میں آپ کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ اس جملہ میں کیا تواضع اور ادب ہے۔ سبحان اللہ


7: یہاں ایک نبی اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے ایک مزدور سے کروا رہا ہے کیونکہ اس کی سیرت اچھی ہے کہ وہ امین ہے۔ جب کہ رشتہ کے معاملے میں ہمارا پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ لڑکا کتنے پیسے کماتا ہے؟ اگر وہ کروڑ پتی ہے تو ٹھیک ورنہ کردار بہتر ہونے کے باوجود ریجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔


8: باپ ہونے کی حیثیت سے حضرت شعیب کو یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ بیٹیاں باہر نہ جائیں تو اچھا ہے۔ اب جونہی موقعہ ملا تواپنی بیٹیوں کو راحت پہنچانے کا فورا بندوبست کیا۔ (بکریاں چرانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، پورا دن پیچھے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے)۔ اگر کسی کی بیٹی مجبورا باہر کام کرنے جاتی ہو تو جتنی جلدی ہوسکے، کمانے کا بندوبست کرکے بیٹی کو گھر میں ٹھہرائیں اور راحت پہنچائیں۔


9: "میں تم پر کوئی مشقت نہیں ڈالنا چاہتا" اس طرح کے جملے آپ کے ماتحت کام کرنے والوں کا خون بڑھا جاتے ہیں۔ جب بھی کسی سے کوئی معاملہ کریں تو اس طرح کے حوصلہ افزا جملے بولتے رہیں، آپ کا کام بھی بخوبی ہو جائے گا اور دلوں کے فاتح بھی بن جائیں گے۔


10: بسا اوقات آپ کو آپ کے مرتبہ اور ڈگری سے کم درجہ کا کام ملتا ہے۔ ایسے میں کچھ نہ کرنے سے بہتر ہے کہ وہ کم درجے اورمشقت والا کام ہی کر لیں۔ عین ممکن ہے کہ اسی کام میں آپ کےلیے خیر اور پروموشن رکھی ہو۔ یہاں حضرت موسی نے یہ نہیں کہا کہ میں تو بادشاہ وقت فرعون کے محل میں شہزادے کے طور پر پلا بڑا ہوں ، میں کیسے بکریاں چراؤں گا؟؟بکریوں کے پیچھے تو جنگل اور پہاڑوں میں دوڑنا پڑے گا۔ جو مل گیا ، وہ کر لیا۔ اس کے بعد خیر ہی خیر ملی ۔


تحریر لمبی ہونے کے ڈر سے دس پر اکتفاء کرتا ہوں ورنہ خود یہ آیت کئی اور سنہری اسباق کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ تدبر نام ہے الفاظ کے پیچھے چھپے پیغام کو جان لینے کا اور اپنی زندگی کےلیے ہدایت نکال لینے کا۔


اللہ تعالی ہمارے قلوب کو تدبر قرآن کی روشنی سے منور فرمائے۔ آمین 


محمد اکبر

15 مئی 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے