تہجد تخلیہ بنام موبائل تخلیہ
از:
محمد فہیم الدین بجنوری
خادم تدریس دارالعلوم دیوبند
18 شوال 1444ھ 9 مئی 2023ء
راقم، نسل نو کو جدید ٹیکنالوجی سے بے بہرہ رکھنے کے حق میں نہیں ہے، ہم ان کو زندہ اور تازہ بہ تازہ میدانوں میں خلائی مخلوق بنانے کی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے، موبائل کا یہی پہلو اس کے فتنہ اور آخری فتنہ ہونے پر مہر ثبت کرتا ہے، سانپ ہے اور سم قاتل رکھتا ہے؛ مگر دوری آپشن نہیں، اس کا پھن آپ کے سینے پر مونگ دل گا اور آپ کے پاس متبادل نہیں ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ گناہوں نے بیشتر راتوں کو سیاہ کیا ہے، سورج کی روشنی ارباب نشاط کو قدیم الایام میں بھی راس نہیں آئی، روزگار زمانہ بھی ہمیشہ ایک رکاوٹ رہا، اس کی گہما گہمی بھی سورج کے ساتھ ہی منزل آشنا ہوتی ہے، یوں جوانی کے حساب رات گئے ہی مرتب ومدون ہوئے۔
کہتے ہیں کہ "خانۂ خالی را دیو می گیرد"، گھر اور جن مجرد تمثیل ہیں، بندۂ غافل بھی خانۂ خالی ہے اور موبائل اس کو اچکنے والا جن ہے، شبانہ کی بہ نسبت ہمارا روزینہ "موبائلی یورش" سے اس لیے محفوظ ہے کہ دن میں خالی بھی نہیں اور خلوت بھی نہیں، رات میں یہ دونوں چیزیں قیامت ڈھاتی ہیں، ہم رات میں گناہوں کی گرفت میں اس لیے آئے کہ رات کی مصروفیات کے چور اور ڈاکو تھے، ہم نے رات میں اللہ کے حق پر شب خون مارا ہوا تھا۔
عہد فاروقی کا ذکر ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجلس میں اونگھ رہے تھے، کسی نے عرض کیا کہ سو جایا کریں، آپ نے فرمایا دن میں تمھارا کام کرتا ہوں اور رات کو اللہ کا حق ادا کرتا ہوں، سونے کے لیے وقت کہاں سے لاؤں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تہجد کی فرضیت مختلف فیہ ہے؛ لیکن عملی طور پر پنج وقتہ اور تہجد میں فرق نہیں تھا، تعداد آٹھ رہی؛ مگر درازی کا بیان ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی قادر الکلام، فصیح اللسان، بازبان کے بس سے ماورا واقع ہوا، صحیح بخاری میں نصف لیل کی تصریح ہے، یعنی آپ کی تہجد نصف لیل سے شروع ہوجاتى اور سلسلہ فجر پر منتہی ہوتا۔
یہ وہ سنت ہے جس میں کسی امام نے اختلاف نہیں کیا، ہمارے نوجوان صرف تہجد اختیار کرلیں، موبائل حملوں کے لیے کسی دیگر ڈھال کی ضرورت نہ ہوگی، تہجد کی لاپرواہی موبائل پرستی کا زینہ ہے، وقت ایک ہے، دو متضاد استعمال کیسے ممکن ہیں؟ آپ نے تخلیہ کا اعزاز موبائل کو تفویض کرکے تہجد کو شرم سار کیا۔
تہجد پناہ ہے، سحر خیزی کی ترتیب، اولِ شب کی نیند سے شروع ہوتی ہے، رات کو جلد سونے والا موبائل باز نہیں ہوسکتا، اگر ہمارا علم ہمیں تہجد گزار نہیں بناتا تو ہمارے علم کی نافعیت لازم بھی نہیں؛ چہ جائے کہ متعدی ہوتی، وقت سحر ہمارا نہیں ہے، رب کا ہے، یہ غیر حاضری اہل علم کے لیے ننگ ہے، ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ نجات چاہتے ہو تو تیرہ تسبیحات صبح صادق سے قبل پوری کرو، صبح کے دو گھنٹے بھی ہم نے اللہ کو نہ دیے تو ہم کیا جیے اور کیا مرے!
میری رشتے داری میں شوہر بیوی کا ایک بزرگ جوڑا ہے، جن کو میں سالہا سال سے آہ سحر گاہی میں سرشار دیکھتا آیا ہوں، ان کے نالے بلند ہوتے تو فجر پر اکتفا رکھنے والا میرے جیسا کاہل بھی بیدار ہوجاتا، ان کے گھر میں موبائل والے دم دبا لیتے ہیں، بچے، بڑے، خواتین سب کو دینی سودا لگ جاتا ہے۔
حضرت مولانا منظور نعمانی علیہ الرحمہ کی روایت ہے کہ ایک پریشان حال غیر مسلم اپنی جنات زدہ بیٹی کو مرکز نظام الدین لے آیا تھا، ناگاہ حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کی نگاہ پڑی تو حاضرین نے خاکستری محسوس کی؛ حتی کہ راکھ بھی پائی گئی، خبیث مخلوق، ان کی نگاہ کے نور کو برداشت نہ کرسکی۔
امام اوزاعی کی ہمسایہ خاتون ان کی بیگم سے ملنے آئی، گھر چھوٹا تھا، حضرت باہر تشریف لے گئے، وہ داخل ہوئی تو جائے نماز پر بیٹھ گئی، اسے محسوس ہوا کہ جائے نماز بھیگی ہوئی ہے، وہ خاتون خانہ کو تنبیہ کرنے لگی کہ خیال رکھا کرو، اہلیہ نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں گرا ہے، حضرت رات بھر روئے ہیں، یہ ان کے آنسو ہیں اور اس جگہ کا یہ یومیہ معمول ہے۔
0 تبصرے