65a854e0fbfe1600199c5c82

دل بھی کمزور پڑ جاتا ہے

 


یہ جو آپ کا دل ہے ناں،اس کو عربی میں "قلب" کہتے ہیں اور قلب کا معنی ہوتا ہے: اُلٹنا پلٹنا۔ یہ دل بھی ایک حالت میں نہیں رہتا۔ کبھی تو اتنا خوش ہوتا ہے جیسے ساری دنیا کی خوشیاں اس کو مل گئی ہیں، کبھی ایسا اداس ہو جاتا ہے جیسے ساری دنیا کا غم اس پر اُنڈیل دیا گیا ہے۔


جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس میں دل کی اُداسی اور بے سکونی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے دل بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ بادِ مُخالف کا ایک ہلکا سا جھونکا اسے اپنی طرف جھکا لیتا ہے۔ہر لمحہ آنکھ کے ذریعے گناہوں کے مناظر اور کان کے ذریعے گناہوں کی آوازیں دل کی پاکیزہ زمین کو نجاست زدہ کر رہی ہیں۔ طرح طرح کے بُرے جذبات پیدا ہو رہے ہیں جن سے یہ دل کمزور ہو جاتا ہے۔


جب آپ کا کوئی عضو کمزور ہو تو اسے آپ مضبوط باندھ لیتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے اور ہاتھ میں چوٹ آئے تو وہ پلستر لگا کر اسے مضبوط کرتا ہے۔سر پر چوٹ آئے تو اُس پر پٹیاں باندھی جاتی ہیں، گھٹنے کمزور ہوں تو آپریشن کر کے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔


ایسے ہی آپ کا دل بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ ذرا سا برائی کا منظر دیکھا اور ارتکاب کر بیٹھا۔ ذرا سی مصیبت آئی اور لوگوں کے سامنے شکوے شکایات کی پٹاری کھول دی۔ ذرا سی کسی نے راز کی بات بتائی اور پوری دنیا کو بتا دیا، ذرا سی خبر چلی اور اس پر دل نے بریکنگ نیوز بنا ڈالی۔ دل کمزور ہونے کی ہزاروں نشانیاں ہیں اور اس پر شیطان اور نفس کی طرف سے چوٹیں بھی لگائی جاتی ہیں، ایسے میں آپ دل کو کیسے مضبوط کریں گے؟؟اس پر کیسے پٹی باندھیں گے؟؟ کس پلستر سے اسے حوصلہ اور ٹھہراؤ دیں گے؟؟ کس چیز سے اُسے بکھر کر ٹوٹنے سے بچائیں گے اور کس چیز سے جوڑیں گے؟ تو وہ چیز قرآن نے بتائی ۔


قرآن کہتا ہے:


(جب )حضرت موسی کی والدہ( اپنے معصوم اور چھوٹے سے بیٹے کو دریا میں ڈالنے لگیں تو ان ) کا دل بے قرار تھا۔ قریب تھا کہ وہ یہ سارا راز کھول دیتیں ،اگر ہم نے ان کے دل کو سنبھالا ( اور مضبوط) نہ کیا ہوتا۔


یہاں قرآن نے دل کے ساتھ "ربط" کا لفظ ذکر کیا ہے جس کا معنی ہوتا ہے: کسی چیز کو باندھنا، مطلب یہ ہے کہ ہم نے موسی کی والدہ کے کمزور دل کو ڈھارس بندھائی جس کی وجہ سے وہ مضبوط ہوگیا۔ اتنا مضبوط کہ اب اگر اس پر مصیبتوں کا احد پہاڑ بھی رکھ دیا جاتا تو ڈگمگاتا نہیں۔ 


یہی بات اصحاب کہف کے بارے میں بھی کہی گئی ہے کہ:


و ربطنا علی قلوبھم 


ہم نے ان کے دلوں کو (باندھ کر)مضبوط کر دیا تھا۔ کیونکہ اس وقت ان کے دل کمزور پڑ سکتے تھے۔ ان کے دلوں کو ایمان ، اُس پر ثابت قدمی اور اپنے وطن کو چھوڑنے پر صبر کے ذریعے سے مضبوط کیا گیا۔


 اور پھر یہی تسلی بھری الفاظ اصحابِ بدر کے بارے میں بھی اترتے نظر آتے ہیں۔


فرمایا:


لیربط علی قلوبکم


یعنی ہم نے بدر کے دن تم پر غنودگی طاری کی اور آسمان سے پانی اس لیے برسایا کہ اس کے ذریعے تمہارے دلوں کو ڈھارس بندھائیں۔


ان تمام آیات میں تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کسی موقع پر آپ کو محسوس ہو کہ میرا دل کسی معاملہ میں کمزور پڑ رہا ہے، اسے اس وقت مضبوطی اور ڈھارس کی ضرورت ہے تو آپ اللہ سے کہیں:


اے موسی کی والدہ کے دل کو ڈھارس دینے والے اللہ!!!!


اے اصحابِ کہف کے قلوب کو مضبوطی اور سہارا دینے والے اللہ!!!!


اے اصحابِ بدر کے ٹوٹتے دلوں کو جوڑ دینے والے اللہ!!!!


فلاں معاملہ میں میرا دل بکھر رہا ہے، میں ٹوٹ رہا ہوں، میرے جذبات منتشر ہو رہے ہیں،میرا دل بے صبرا ہو رہا ہے، اس میں کمزوری ،عجلت(جلدبازی) اور برے احساسات جنم لے رہے ہیں،میں تنہا ہوں، صرف آپ ہی دیکھ رہے ہیں،میرا دلِ ناتواں شیطان اور زمانے کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے، آپ ہی میرے دل کو ڈھارس اور مضبوطی دیجیے۔


جب دل کی گہرائی سے یہ آواز نکلتی ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک دم سے انسان رحمت الہی کے سمندر میں جا گرتا ہے ، پھر دنیا کی کوئی طاقت اور معاصی کا کوئی منظر اس کے دل کو ڈگمگا نہیں سکتا کیونکہ اب اس کو باندھا ہے سوہنے رب نے۔


محمد اکبر

10 مئی 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے