میں آپ کے سامنے قرآن کریم کا ایک چھوٹا سا جملہ ذکر کر رہا ہوں جو در اصل ہمارے گذشتہ دو سوالوں کا جواب ہے۔ وہ جملہ یہ ہے:
اَصْلُھَا ثَابِت
ترجمہ: جس کی جڑ (زمین میں) مضبوطی سے جمی ہوئی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے ہمیں کلمہ طیبہ کو ایک مثال سے سمجھایا ہے تاکہ ایک معنوی چیز کو حسی بنا کر اہل ایمان کے قلوب و اذہان میں پیوست کر دیا جائے اور وہ اپنی بنیاد اسی کلمہ طیبہ سے اٹھائیں جسے وہ ماں کی گود ہی سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں۔
ہمیں والدین نے بچپن ہی میں کلمہ سکھایا اور پھر ہم نے اپنی نسلوں کو بھی رٹا لگوا دیا جس کا یہ فائدہ ہوا کہ ہم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور یہ کائنات کی سب سے بڑی سعادت و عقل مندی ہے الحمد للہ کہ ہم مسلمان ہیں ۔
لیکن اس کلمہ کی بنیاد کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم یا تو صرف ظاہر میں دین دار ہیں، باطن میں نہیں یا پھر آدھی شریعت میں دین دار ہیں اور آدھی میں من مانیاں کرتے ہیں اور فتنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جو جملہ آپ کے سامنے ذکر کیا ہے، اس میں اللہ تعالی نے کلمہ طیبہ کو ایک مثال سے سمجھایا ہے۔ وہ یہ کہ :
کلمہ طیبہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوطی سے جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ اپنے رب کے حکم سے وہ ہر آن پھل دیتا ہے۔(سورت ابراھیم)
پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہنچا سکتیں، نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں۔ بلکہ کئی بار دیکھا کہ طوفانی آندھیوں سے کئی مضبوط درخت یا تو بالکل اکھڑ جاتے ہیں یا ان کی شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں یا کم از کم زمین کی طرف جھک جاتے ہیں لیکن کھجور کے درخت کو کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ عام درختوں کی بنسبت وہ لمبا بھی ہوتا ہے جس میں گرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس کی جڑیں زمین کے سینے میں مضبوطی سے پیوست ہوتی ہیں، اس لیے حوادث سے وہ جھکتا نہیں ہے۔
اب اس مثال کو اگر آپ کلمہ طیبہ کے ساتھ جوڑیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلمہ توحید پڑھ لینے کے بعد اگلا کام اِس کو دل کی گہرائی میں اتارنا ہے کہ میں نے کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو خالقِ کائنات کا غلام یا باندی بنا ڈالا۔
کلمہ پڑھ کر میں نے پورے شوق سے اقرار کر لیا کہ میں غلام یا باندی ہونے کے ناطے وہ حدود (Boundaries) کراس نہیں کروں گا جو میرے آقا اور رب نے میرے لیے متعین کی ہیں۔ میں اپنے رب کی ہر بات ہر موقع اور ہر موسم میں مانوں گا۔ میں غلام ہوں تو مجھے جواب اپنے والد، والدہ، بھائی بہن، بیوی شوہر، دوست یار، رشتہ دار ، استاد شاگرد، تاجر گاہگ، بوس مزدور وغیرہ کو نہیں دینا بلکہ اللہ کو دینا ہے جس کا کلمہ میں نے پڑھا ہے۔
جب اس کلمہ کی والیو(Value) اور حقیقت دل میں پیدا ہوتی ہے تو پھر دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں:
1: ہم کسی انسان کے ڈر سے نہیں بلکہ صرف اپنے رب اور مولٰی جس کا کلمہ پڑھا ہے، اُس کے ڈر سے گناہوں سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے لگ جاتے ہیں۔پھر نہ ہم سے والدین کو شکایت ہوتی ہے اور نہ کسی اور کو کیونکہ میں سمجھ گیا کہ یہ کلمہ میں نے اپنے اندر کی تبدیلی کےلیے پڑھا ہے اور اس کلمہ کی حقیقت خود میرے اپنے دل سے شروع ہو رہی ہے کہ میں اپنی روح میں اس کو اتاروں تاکہ یہ تناور درخت بن کر آسمانی بلندیوں کو چھوئے کہ جیسے کھجور کے درخت کی شاخیں بلند ہوتی ہیں، اسی طرح قرآن میں ایمان کو بھی علو (بلندی) کے ساتھ جوڑ کر بتا دیا گیا کہ تمہارا ایمان بھی اس طرح بلند ہونا چاہیے۔
2: کلمہ کی جڑیں دل کی زمین میں مستحکم ہونے کے بعد انسان فتنوں کی آندھیوں اور گناہوں کی تیز ہواؤں سے گرتا نہیں ہے جیسے کھجور کا درخت۔
پھر اگر گھر، یونیورسٹی، بازار،سوسائٹی کا سارا ماحول بھی میرے خلاف کھڑا ہو جائے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کیونکہ میں عارضی حالات و حوادث کی وجہ سے گرتا نہیں ہوں، جھکتا نہیں ہوں۔
اگر میں رات کی تنہائی میں ہوں، جنگل و بیاباں میں ہوں، باغ و گلستاں میں ہوں، بہار وخزاں میں ہوں، خوشی و غمی میں ہوں، اپنوں یا پرائیوں میں ہوں، گھر یا بازار میں ہوں، مسجد یا پارک میں ہوں، شہر یا دیہات میں ہوں، ہر حال میں ، ہرجگہ اور ہر وقت تیز و تند ہواؤں کے خلاف کھڑا رہوں گا چاہے مجھے والدین دیکھ رہے ہوں یا نہیں، کیونکہ میں جان گیا کہ جس طرح
کھجور کا درخت ہر آن پھل دے رہا ہے(سورت ابراھیم)،
مجھے بھی ہر آن اور ہر لمحہ اللہ کا بندہ بن کر رہنا ہے اور نیک اعمال کا پھل دینا ہے یعنی اُن کو بجا لانا ہے۔
اب یہ سوال کہ میرے یا میری اولاد کے دل میں کلمہ توحید کا درخت اپنی جڑیں کیسے مضبوط کرے گا تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اپنے آپ کو جبراً قرآن کریم سے جوڑیں۔ کیونکہ ایک تو یہ خود آسمانی نور ہے جو بارش کے قطروں کی طرح آپ کے دل کی زمین کو زرخیز بنا کر ایمان کے درخت کی جڑوں کو مضبوط کرتا ہے اور دوسرا آپ کو اُن لوگوں کی صحبت میں لے جاتا ہے جن کے دل میں ایمان و یقین کے درخت نے ایسی جڑیں گاڑھی تھیں کہ زمانہ کی کوئی باد مخالف اور کوئی آندھی ان کے ایمان میں ذرا برابر بھی تزلزل پیدا نہیں کر سکی۔ ان کا ایمان چٹانوں کی طرح مضبوط اور پہاڑوں کی طرح بلند تھا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے درخت کو نیک اعمال کا پانی برابر دیتے رہیں۔ جس قدر اپنی طبیعت پر جبر کر کے اعمال پر کھڑا کریں گے، اسی قدر آپ کی روح اور قلب میں یہ درخت تناور بنتا چلا جائے گا اور ایک دن آئے گا کہ آپ کےلیے دین کا ہر حکم طبیعت بن کر آسان ہو جائے گا جیسے اللہ تعالی نے نماز کے بارے میں فرمایا کہ یہ نماز ان لوگوں کو بھاری معلوم نہیں ہوتی جن میں خشوع ہوتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ اگر آپ
اَصْلُهَا ثَابِت
کو سمجھ گئے اور اپنے ماتحت لوگوں کو بھی ایک مرتبہ گہرائی سے سمجھا دیا تو ان شاء اللہ نیکی کے ہر کام میں یہ جملہ معاون ثابت ہو گا ، نہ آپ کو اولاد اور دوسرے لوگوں سے شکایت ہوگی اور نہ خود کو اندر سے کوستے رہیں گے۔
یہ پوری تحریر علامہ اقبال مرحوم کے ایک شعر میں جا کر سمٹ جاتی ہے:
خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلٰہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
محمد اکبر
5 جون 2023ء
0 تبصرے