65a854e0fbfe1600199c5c82

ایک آیت قرآنی سے 25 عمدہ نکات

 گزشتہ دن تدبر قرآن کے واٹس ایپ گروپ میں ایک آیت بھیجی جس میں طلبہ و طالبات نے عمدہ تدبرات پیش کیے، ان کا خلاصہ یہاں ذکر کرتا ہوں ۔اس سے پہلے میں نے بھی ایک تحریر میں اس آیت کے حوالے سے کچھ لکھ تھا جو میری وال پہ موجود ہے ۔ اور مزید بھی کچھ باتیں اس تحریر میں شامل کی ہیں۔


آیت:


فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءًۚ-وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ


جو جھاگ ہوتا ہے وہ باہر گر کر ضائع ہو جاتا ہے لیکن وہ چیز جو لوگوں کےلیے فائدہ مند ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔


اسباق:


1: اگر دین کی بات کہنے میں اخلاص نہ ہو تو بسا اوقات وقتی طور پر اس کی بڑی واہ واہ ہو سکتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا اثر ختم ہوتا جاتا ہے۔دوسری طرف اگر کوئی سادہ سی بات بھی اخلاص اور صرف اللہ کی ذات کو خوش کرنے کےلیے کہی جائے تو وہ باقی رہتی ہے۔ اس کا فائدہ آنے والی نسلوں کو پہنچتا ہے اور لوگ ان ملفوظات سے مستفید ہوتے ہیں۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ اپنی گفتگو کو جھاگ بناتے ہیں یا وہ پانی جو ایک لمبا عرصہ زمین میں ٹھہر کر لوگوں کو نفع دیتا ہے۔


2: ہر وہ عمل جس میں شرکِ خفی کی آمیزش ہو یعنی لوگوں کو دکھانے کےلیے کیا گیا ہو، اس عمل میں چاہے آپ نے کتنی دولت کیوں نہ خرچ کی ہو، سجدے کتنے لمبے کیوں نہ کیے ہوں، دوران تلاوت آواز کو کتنے ہی زیر و بم نہ دیے ہوں ، کسی ضرورت مند کی مدد میں جسم تھکاوٹ سے کتنا ہی چور چور کیوں نہ کیا ہو،وہ جھاگ کی مانند ہے، کچھ دیر رہ کر گر جائے گا یا ہوا بن جائے گا جس کو قرآن نے بھی "ھباء منثورا"یعنی فضا میں بکھرے ہوئے گرد و غبار کی طرح بے قیمت کہا ہے۔


لیکن اگر آپ نے ایک کھجور اللہ کی راہ میں دی، اٹک اٹک کر تلاوت کی، کسی کی مدد میں صرف ایک مخلصانہ مشورہ ہی دے سکے، کسی کو قرآن کی صرف ایک آیت ہی یاد کرا سکے اور اس چھوٹے سے عمل میں اخلاص زیادہ تھا تو یہ عمل زمین میں ٹھہر جائے گا۔ یہ عمل اُس بیج کی طرح ہے جو دیکھنے میں چھوٹا اور کمزور سا لگتا ہے لیکن اِس میں ایک پورا درخت پنہا ہے جس میں ہزاروں بیج ہیں اور پھر ان بیجوں میں ہزاروں درخت ہیں۔


3: ہمارا تعلق دنیا میں دو قسم کے لوگوں سے ہوتا ہے:


مخلص 

بناوٹی


آیت مبارکہ کے تدبر سے یہ بات سمجھ آئی کہ جو لوگ اور رشتہ دار ہمارے لیے مخلص ہوتے ہیں، اللہ رب العزت زندگی بھر بلکہ موت کے بعد بھی ہمیں ان کا ساتھ نصیب کرتے ہیں اور جو بناوٹی اور جھاگ نما ہوں ، وہ کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی وقت ہماری زندگی سے جھاگ کی طرح نکل ہی جاتے ہیں۔


4: حق اور یقین کی مثال سیل رواں کی ہے جب کہ باطل کی مثال جھاگ کی ہے۔ کچھ عرصہ غالب نظر آتا ہے اور پھر جھاگ کی طرح بے فائدہ اور فنا ہو جاتا ہے جب کہ حق پانی اور دوسری فائدہ مند چیزوں کی طرح باقی رہنے والا ہے۔(اکبر)


5: کبھی آپ کا نفع عارضی ہوتا ہے یعنی کچھ وقت بڑے جوش و خروش سے کام کیا اور پھر سو گئے جیسے حالیہ سیلاب کے دنوں میں کئی تنظیموں نے لوگوں سے متاثرین کی مدد کےلیے پیسہ جمع کیا اور ابتدائی دو تین دن سوشل میڈیا پر پوسٹنگ وغیرہ کے ذریعے ہلّا مچایا لیکن پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے جب کہ اہل حق اور اہل علم اب تک سیلاب متاثرین کے گھروں کو تعمیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر شک ہو تو بیت السلام ٹرسٹ کے تحت سیلابی علاقوں کو وزٹ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ نفع ہوتا ہے جو ٹھہر جاتا ہے اور دائمی ہوتا ہے۔(اکبر)


6: جس شخص سے آپ کو محبت ہے اس کےلیے کوئی ایسی نیکی کر جائیں کہ وہ فائدہ اٹھاتا رہے اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ یہ نیکی آپ نے اس کے ساتھ کی تھی۔ بس آپ کی نیکی کا صرف نفع اس کو ملتا رہے۔(اکبر)


7: کسی بھی ادارہ یا کسی بھی جگہ میں ہوں تو اپنے آپ کو جھاگ مت بنائیں۔ پانی بن جائیں جو ہر کسی کی پیاس بھی بجھاتا ہے اور روح کو تازگی بھی دیتا ہے۔بھاری چیزوں کو سطح پر اٹھا لیتا ہے اور قیمتی چیزوں کو گہرائی میں لے جاتا ہے۔جب کسی مردہ اور بنجر زمین میں اترتا ہے تو اسے ایک نئی زندگی دے دیتا ہے اور جب کسی چٹان سے واسطہ پڑتا ہے تو اس کے قریب سے گھوم جاتا ہے۔سونے کے برتن میں ڈالو یا مٹی کے برتن میں، اپنا رنگ نہیں بدلتا۔ (اکبر)


8: علم وہی باقی رہتا ہے جو نافع ہو۔ جو علم صرف تکبر پیدا کرے وہ جھاگ کی مانند ہے چاہے دیکھنے میں کتنے ہی اسرار و رموز سے بھرپور کیوں نہ ہو۔(اکبر)


9: زندگی میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کر کے جاؤ جو آپ کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو نفع دے۔(اکبر)


10: آپ کو اپنی پوری زندگی کا audit کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں سالوں کے سال صرف جھاگ میں ضائع کر رہا ہوں اور اپنے کندھوں پر وہ نمک لادھ رکھا ہے جو پانی میں چند لمحوں کے اندر گھل مل جائے گا اور میں خالی ہو جاؤں گا۔ اپنی زندگی میں وزن پیدا کریں۔(اکبر)


11: یہاں جفاء کا لفظ ذکر کیا گیا ہے جس کا معنی ہوتا ہے دیگچی کا کھولنے کے وقت جھاگ کو باہر پھینک دینا۔ اگر آپ اپنی وقعت اور اہمیت کو نہیں پہچانتے تو کسی بھی وقت کسی بھی ادارہ سے جھاگ کی طرح باہر پھینک دیے جائیں گے۔پھینکنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن آپ کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ اس لیے اس سے پہلے ہی اپنے آپ کو وہ جوہر بنائیں جس کو پھینکنے کے بجائے سنبھال کر رکھا جاتا ہے اور اس سے نفع اٹھایا جاتا ہے۔ ہمارے استاد کہتے ہیں کہ اپنا اتنا وزن بناؤ کہ اگر تمہیں کسی جگہ سے نکالا بھی جاتا ہے تو تمہاری جگہ پر پرنسپل یا مہتمم یا کسی بھی آنر کو پانچ بندے کام کےلیے رکھنے پڑیں۔(اکبر)


12: باطل ہمیشہ باتوں کے سہارے کھڑا ہوتا ہے جب کہ حق دل کے سہارے۔ باتیں کرنے والے پیھچے رہ جاتے ہیں اور دل والے آگے نکل جاتے ہیں۔(اکبر)


13: جھاگ ہمیشہ جھاگ ہی ہوتی ہے چاہے جتنی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کثرت کو اسلام میں کبھی بھی معیار نہیں بنایا گیا کہ میرے فالوورز یا سبسکرائبرز فلاں سے زیادہ ہیں یا میرے جلسہ میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہے یا میرے پیچھے چلنے والے لاکھوں میں ہیں یا میرے ساتھ دنیا کے ذہین لوگ ہیں، اس لیے میں حق پر ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ حق تھوڑا ہو کر بھی زیادہ ہوتا ہے۔(اکبر)


14: اللہ کی طرف سے اترنے والی وحی پانی کی طرح ہے کہ جیسے پانی برستا ہے تو ندی نالے اپنی اپنی بساط کے مطابق بہتے ہیں اور پانی کا ریلا پھولے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھا لیتا ہے۔اسی طرح دل بھی اترنے والی وحی کو اپنی بساط کے مطابق قبول کرتے ہیں کہ کسی کا دل آیت کے ہر جملہ سے ایمان میں بڑھتا ہے اور یقین کا سفر طے کرتا ہے جس کا نتیجہ عمل نافع کی صورت میں نکلتا ہے اور کسی کا دل شک کے جھاگ سے بھر جاتاہے اور اس کا کوئی عمل نافع نہیں بن پاتا۔(اکبر)


15: بسا اوقات ہم کسی موٹیویشنل سپیکر کو سن لینے کے بعد اپنی زندگی یا معاشرہ سے جھاگ ختم کرنا شروع ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی کا بہت سارا وقت اسی کام کےلیے لگا دیتے ہیں کہ جھاگ اکٹھا کرو اور اسے پھینکو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ جب مثبت، تعمیری، ایجابی اور مفید کاموں میں لگتے ہیں تو آپ کی زندگی یا معاشرہ سے جھاگ خود بخود چھٹنے لگ جاتا ہے۔(اکبر)


16: بویطی نے امام شافعی رحمہ اللہ کو کہا تھا کہ آپ جو کتابیں لکھ رہے ہیں، ان کو کون پڑھے گا؟ آپ اپنے آپ کو تھکا رہے ہیں۔ اس پر امام شافعی نے فرمایا کہ بیٹا! میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، یہ حق ہے اور حق کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ (اگر اس کا فائدہ آج تمہیں نظر نہیں آرہا تو یہ مطلب نہیں کہ کسی کو بھی نہیں ہوگا۔ ممکن ہے بعد میں کسی کو فائدہ ہو جائے چنانچہ پھر ہوا بھی۔)(اکبر)


17: دنیا کی کئی چیزیں جن سے ہمیں صبح و شام واسطہ پڑتا ہے، وہ ایک اعتبار سے جھاگ کی طرح ہیں جن سے ہم وقتی طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر وہ ختم ہو جاتی ہیں جیسے جاب، گاڑیاں، بنگلے، خوبصورتی، اسٹیٹس وغیرہ۔ لیکن جو اعمال ہم کرتے ہیں ان کا صلہ ہمیشہ رہتا ہے۔ قرآن نے بھی ایک دوسرے موقع پر کہا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے ، وہ ختم ہوجائے گا اور جو تم نے اللہ کے پاس بھیجا ہے وہ باقی رہے گا۔ ہمیں مادیت سے زیادہ روحانیت اور باقیات صالحات کی فکر میں رہنا چاہیے کہ میرا کمایا ہوا اللہ کے ہاں باقی رہے اور میں اس سے بعد والی زندگی میں فائدہ اٹھا سکوں۔


18:دنیا کے trend جو هم follow کرتے ہیں وہ جھاگ کی طرح ہیں، جلد ختم ہوجاتے ہیں، ایک کے بعد دوسرا آتا ہے تو لوگ پہلے کو بھول جاتے ہیں، ایک گانا جو لوگ بہت شوق سے سنتے تھے، دوسرے دن اسی سے اکتا گئے، ایک فیشن جسے آج بخوشی اپنایا، کل اسی سے اکتاہٹ کا شکار ہو کر نیا فیشن بنا ڈالا۔ یہ سب جھاگ ہیں۔ لیکن اللہ کے بنائے ہوئے اصول ، احکام اور فیشن سے کبھی ایمان والے بور نہیں ہوتے۔ ان کا نفع ہمیشہ رہتا ہے۔ کبھی قرآن پڑھنے یا داڑھی رکھنے سے اکتاہٹ اور بوریت نہیں ہوتی۔


19: برائی کی لذت جھاگ کی طرح ہے جو چند لمحات میں ختم ہو جاتی ہے اور انسان ٹھنڈا ہو کر بیٹھ جاتا ہے جب کہ نیکی کی لذت اور مٹھاس انسان کو ایک نئی زندگی دیتی ہے اور اس کے دل میں ایک ایسا نور پیدا کرتی ہے جس کی چاشنی وہ زندگی بھر محسوس کرتا رہتا ہے۔


20: حق اور ایمان والوں کی زندگی میں نمائش اور پھوگ پن نہیں ہوتا ، ان کی زندگی میں سچ اور حق کی وہ گہرائی ہوتی ہے جو ہر موقع پر انہیں مفید بنائے رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔


21: ہم زندگی میں بہت سی چیزوں کو سطحی نظر سے دیکھ کر حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں لیکن حقیقت وہ نہیں ہوتی جو ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں بلکہ حقیقت اس کے اندر چھپی ہوتی ہے ۔ بس کبھی غبار اور کبھی جھاگ ہٹنے کی دیر ہوتی ہے کہ معاملہ کھل جاتا ہے۔


22: ہماری زندگی بھی ایک جھاگ کی مانند ہے جس کو ہم نے حقیقت سمجھ ہوا ہے اور دن رات اسی کےلیے سرگرداں رہتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں بڑھاپا آتا ہے اور نفسانی خواہشات کا بہاؤ کم ہوتا ہے تو اس دنیا کی حقیقت یعنی بے وقعت ہونا اور جھاگ ہونا، جب کہ آخرت والی زندگی کا بقا اور فائدے والی ہونے واضح ہوجاتا ہے۔اگر زندگی میں یہ بات واضح نہ ہو تو جب موت کا وقت آتا ہے تو یہ دنیا اندھیری ہوجاتی ہے، اگر ایمان و اعمال کی پونجی پاس نہ ہو تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ساری خوبصورتی در حقیقت ایک عذاب اور جھاگ تھی جس کا ادراک پہلے نہیں ہوسکا۔ لیکن اب نظر تیز کر دی گئی ہے اور پردہ اٹھا دیا گیا ہے تو سب کچھ معلوم ہو رہا ہے کہ کون سی چیز فائدہ والی تھی اور کونسی صرف جھاگ۔


23: آپ کے پاس جو علم، ہنر، سکل ، مال و دولت ، وجاہت، قوت بیان وغیرہ ہے ، اس کو دوسروں کے نفع کےلیے خرچ کریں تو خدا آپ کی نیک نامی کو بعد میں آنے والوں میں باقی رکھے گا۔ جو علم و رزق کو تقسیم نہیں کرتے وہ جھاگ کی طرح مٹ جاتے ہیں اور دنیا میں ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔


24: لوگوں کے قلوب میں وہی شخص زندہ رہتا ہے جو انہیں نفع دے۔ اس کی مثال اس خوبصورت تحریر کی طرح ہے جسے لوگ اپنے پاس بار بار پڑھنے کےلیے رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جو دوسروں کو نفع نہیں پہنچاتا تو وہ خالی کاغذ کی مانند ہے جسے لوگ ردی میں پھینک دیتے ہیں اور وہ ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں ہوتے۔ گویا ان کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔


25: فرعون ، ہامان اور قارون جو اللہ کے باغی اور منکرین تھے، سب ختم ہوگئے لیکن لوگوں کے کام کی چیز یعنی ان کی زندگی سے عبرت اور سبق نفع کےلیے باقی رہ گیا۔ اب ہم پر ہے کہ ہم ان واقعات سے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔ 


مولانا محمد اکبر

10 جون 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے