65a854e0fbfe1600199c5c82

کوشش کے باوجود اولاد دین پر نہیں آرہی قسط (1)

 کچھ دن پہلے ایک عورت نے سوال پوچھا کہ میں اپنی اولاد کو مکمل دینی ماحول دینے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن اس کے باوجود وہ دین کی طرف نہیں آ رہے۔ میری کوشش ہے کہ میرے بچے باجماعت نماز پڑھیں، بیٹیاں پردہ کریں، میرے اور اپنے ابو کے فرمانبردار بنیں، اٹھنے سے لے کر سونے تک، بیٹھنے سے لے کر چلنے تک، گھر سے لے کر یونیورسٹی تک، پارک سے لے کر مارکیٹ تک ہر جگہ با ادب رہیں، ان کی نظروں میں حیاء ہو ، زبان میں تہذیب ہو، چلنے میں اعتدال ہو اور ایک نیک انسان کی طرح زندگی گزاریں۔ دین ان کی روح میں اتر جائے۔ 


اس کےلیے میں نے انہیں ہر طرح کا بہترین ماحول دیا ہے یعنی مدرسہ کے قاری صاحب گھر میں پڑھانے آتے ہیں، سکول اور یونیورسٹی میں کوشش کی ہے کہ مخلوط ماحول والی درس گاہ میں نہ جائیں۔ بچیوں کو ہاسٹل میں رہائش سے دور رکھا۔ موبائل اور ٹیلی ویژن سے دور رہنے کی تلقین کرتی رہتی ہوں، نمازوں کی ترغیب دیتی ہوں، ان کی منہ مانگی سب چیزیں مہیا کرتی ہوں کہ وہ خوش رہیں اور دین کے حوالے سے میری بات مانیں اور اگر میرا یا والد کا ڈنڈا سر پر نہ بھی ہو تو بھی وہ دیندار رہیں۔


لیکن اس کے باوجود مجھے اُن سے جس نتیجہ کی امید تھی ، وہ نہیں مل رہا۔ نمازوں میں سستی، تلاوت میں ناغے، بیٹی گھر سے پردہ میں یونیورسٹی جاتی ہے اور وہاں کیفے ٹیریا میں برقعہ اتار دیتی ہے۔ کسی کام کا کہوں تو سستی دکھاتے ہیں۔ اب میں کیا کروں؟؟؟ میں تو کُڑ کُڑ کر، غم کھا کھا کر ہلکان ہو رہی ہوں۔ اگر آپ کے پاس قرآن سے کوئی تسلی کے الفاظ ہیں تو بتا دیں۔


میں نے کہا دیکھو باجی! 


اولاد کی تربیت کے حوالے سے قرآن کریم نے دو بڑی اہم باتیں ذکر کی ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق والدین کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق خود اولاد کے ساتھ ہے۔


حضرت مریم جب چھوٹی تھیں تو ان کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ :


وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا


یعنی اللہ نے اسے بہترین طریقے سے پروان چڑھایا۔(سورت آل عمران)


یہاں دو لفظ اگر سمجھ لیے جائیں تو والدین اور اولاد دونوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔


اَنْبَتَهَا:


یہ لفظ در اصل "اِنْبَاتْ" سے بنا ہے جس کا معنی ہوتا ہے کسی بیج کو اُٹھان دینے کےلیے سازگار ماحول دینا کہ وہ اُگ سکے۔ کسان لوگ جانتے ہیں کہ وہ سال میں تین سے چار بار زمین میں ہل جوتتے ہیں۔ اس کے بعد اس میں کھاد بھی ڈالتے ہیں۔ پانی کے ذریعے اسے زرخیز بھی بناتے ہیں تاکہ ہر بیج خوب پیدوار دینے والا بنے۔ خودرو گھاس اور جڑی بوٹیوں کا بھی دوائی کے ذریعے صفایا کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد جب بیج ڈالتے ہیں تو کچھ بیج خوبصورت پیداوار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور کچھ بیج ماحول سازگار اور مناسب ہونے کے باوجود زمین کی تہ ہی میں رہ جاتے ہیں یا نکلتے بھی ہیں تو کونپل بن کر زمین کی سطح پر گردن جھکا بیٹھتے ہیں۔ 


لیکن اس میں کسان کا قصور نہیں ہوتا کیونکہ اس نے جو ماحول کسی بھی بیج کو دینا تھا، وہ دیا۔ اب کسی بیج نے فائدہ اٹھایا اور ثمر دار ہوگیا اور کسی نے فائدہ نہیں اٹھایا اور لوگوں کے پاؤں تلے روندتا رہا۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ پکی ہے کہ ہر کسان کو ہر بیج سے پھل کی امید ہوتی ہے اور وہ اسے پروان چڑھتے، پھلتے پھولتے، خوشبو دیتے دیکھنا چاہتا ہے اور اسی سے اسے خوشی بھی ہوتی ہے۔


دوسرا لفظ ہے : نَبَاتا


اس کا معنی ہوتا ہے زمین کی سوتوں سے خود بیج کا باہر نکلنا۔ یعنی بیج کی ذات ہی میں اٹھنے، پروان چڑھنے اور ثمر دار ہونے کی لگن ہے، اس کی روح میں ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے اور اسی کے مطابق چلنے کا شوق ہے۔ اس کو کہتے ہیں : نبات


اگر آیت میں غور کریں تو وَأَنْبَتَهَا اِنْبَاتًا حَسَنًا ہونا چاہیے لیکن یہاں َنَبَاتاً حَسَناً ہے۔


مطلب یہ ہوا کہ ہم نے حضرت مریم کی تربیت کےلیے ایک تو ماحول بہترین بنایا یعنی انہیں والدہ بھی نیک دی ، زکریا علیہ السلام کی پرورش میں دیا اور بیت المقدس کے کمروں میں سے ایک کمرہ ان کےلیے مختص کیا گیا جو عموما لڑکیوں کےلیے نہیں ہوتا تھا، اس کمرے سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی تھی کہ عبادت خانے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ لیکن اس سب ماحول کے باوجود اصل بات نبات ہے یعنی خود ان کی ذات میں بھی نیکی کا جذبہ، عفت و پاکدامنی اور صلاح و تقوی موجود تھا۔ جب یہ دونوں چیزیں آپس میں مل گئیں تو مریم سلام اللہ علیھا کے بطن مبارک سے حضرت عیسی علیہ السلام جیسے پیغمبر کی پیدائش ہوئی اور وہ خود بھی عفت و پاکدامنی ، عبادت و ریاضت، خشیت الہی اور حق بینی کی نشانی بن گئیں۔


اب دو مثالیں قرآن نے بیان کی ہیں۔


ایک مثال جہاں ماحول اچھا ہے لیکن خود کے اندر طلب نہیں تو ہدایت نہیں ملی۔ وہ ہے حضرت نوح کے بیٹے ، کئی سو سال دعوت دینے کے باوجود نبات کی صفت نہیں تھی تو ایمان نہیں لائے۔


 دوسری مثال حضرت یوسف کی ہے کہ انبات اور نبات دونوں موجود ہیں کہ ماحول بھی اچھا اور خود میں بھی ماحول کو قبول کرنے کی صلاحیت۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ہی دیکھ لیجیے کہ ماحول بھی اچھا ملا اور خود بھی والد ماجد کے طریق پر چلنا پسند کیا۔ اس لیے ہر دو شخصیات کا نام مابعد قیامت بھی چمکتا رہے گا۔


اب ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم جو ماحول اپنی اولاد کو بہترین سے بہترین دے سکتے ہیں، دیں۔ اس کے بعد دوسری ذمہ داری خود اولاد کی ہے۔ وہ بالغ ہیں، خود انہیں سمجھنا چاہیے۔ والدین کب تک جبراً دین کی طرف متوجہ کریں گے؟؟ آپ فرسٹریشن کا شکار نہ ہوں۔ آپ نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اولاد نے اپنے اعمال کا۔ آپ کی مثال کسان کی سی ہے جو زیادہ سے زیادہ بیج کو خوشگوار ماحول دے سکتا ہے، زمین کے نیچے سے انگلی پکڑ کر تنا ور درخت نہیں بنا سکتا۔ 


اب یہ سوال اہم ہے کہ اولاد خود کیسے اپنی ذمہ داری کو سمجھے گی اور اپنی روح میں دین کی روح کو جگہ دے گی۔ اس کےلیے مزید بات کریں گے ان شاء اللہ


محمد اکبر

2 جون 2023ء

============

اولاد کے اندر ذمہ داری کا احساس کیسے پیدا ہو قسط 1

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے