65a854e0fbfe1600199c5c82

انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم سے جڑے دارالعلوم دیوبند کے حالیہ اعلان

 تحریر: مفتی عبید انور شاہ قیصر 

انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم سے جڑے دارالعلوم دیوبند کے حالیہ اعلان کی موافقت و مخالفت، تائید و تردید کا بازار گرم ہے. کل سے دسیوں تحریریں سامنے آ چکی ہیں. فیس بک اور واٹس ایپ پر اس تعلق سے مسلسل مضامین اور تبصرے نظر آ رہے ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے. ماضی میں بھی دارالعلوم کے مختلف فیصلوں کو لے کر اس طرح کی صورتحال نظر آئی ہے. دارالعلوم میرے لیے صرف تعلیم گاہ اور مادر علمی نہیں ہے بلکہ وہ عقیدت و محبت کا مرکز بھی ہے. اس سے متعلق اس قسم کی بحثیں لازمی طور پر متوجہ کرتی ہیں اور پھر اپنے علم کی حد تک معاملہ کی وضاحت ضرورت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے. آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ دارالعلوم دیوبند کے اعلانات اور اس کے دیگر مسائل پر لکھنے والوں اور ان مباحث میں حصہ لینے والوں کی مختلف انواع ہیں، جنہیں ہم تفصیل سے یہاں لکھتے ہیں:


**ایک گروہ وہ ہے جسے دارالعلوم دیوبند سے اندھی عقیدت ہے. وہ اس کے ہر فیصلے کو منزّل من اللہ سمجھتا ہے اور اس کے خلاف ایک لفظ سننا بھی پسند نہیں کرتا. ان لوگوں کا معاملہ نادان دوست والا ہے. انہیں صحیح غلط میں تمیز ہے، نہ اپنے مستقبل کی خبر ہے، نہ امت کے زوال اور اس کے اسباب کا ادراک ہے اور نہ عصرِ حاضر کے مسائل اور چیلنجز کی کوئی سمجھ ہے. یہ لوگ مرفوع القلم ہیں اور *أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ* کا نمونہ ہیں. 

 

**دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہیں (مختلف وجوہات کی بنا پر) دارالعلوم سے دلی بغض ہے. دارالعلوم کا نام آتے ہی ان کے دلوں میں نفرت کی آگ سلگ اٹھتی ہے. وہ دارالعلوم کے خلاف لکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. اس کام میں وہ بسا اوقات سچ اور جھوٹ کی تحقیق بھی ضروری نہیں سمجھتے اور سنی سنائی باتوں کو پھیلانا اور دارالعلوم کے خلاف بد کلامی و بد قلمی اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں. ان کے لیے ہمارے پاس ایک ہی جملہ ہے: مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ. 


**تیسرا گروہ ان بے عقل لوگوں کا ہے جن کے پاس اپنی کوئی سوچ نہیں. ان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ صبح شام مختلف مسیجز اور مضامین پڑھتے رہتے ہیں، کسی نے زورِ قلم کا مظاہرہ کرکے کچھ لکھ دیا تو وہی ان کا عقیدہ بن جاتا ہے اور پھر اسے نشر کرنا اور دوسروں تک پہنچانا، رات دن وہ اسی کام میں لگے رہتے ہیں. اگلے روز کسی نے ان کے عقیدہ کے خلاف کوئی زیادہ مؤثر تحریر لکھ دی تو ان کا قبلہ بدل جاتا ہے اور الٹے بانس بریلی کو چل پڑتے ہیں. صرف دارالعلوم دیوبند نہیں، بلکہ تمام ہی معاملات میں یہ گروہ اپنے آدھے ادھورے علم کی بنا پر ظن و تخمین اور افواہوں سے بھری زندگی گزارتا ہے اور یہی ان کا کل سرمایہ حیات ہوتا ہے. یہ لوگ *كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا * کا مصداق ہیں. 


**چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے جو دارالعلوم کے مخلص ہیں. وہ ہر حال میں اس کا بھلا چاہتے ہیں. ان میں عقل و شعور اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے. انہیں ضروریاتِ زمانہ کا بھی علم ہے اور تعلیمی اداروں کو در پیش مختلف انتظامی مسائل کو بھی وہ جانتے ہیں. بطور خاص وہ دارالعلوم اور اس کے اطراف و اکناف کے ماحول سے بھی واقفیت رکھتے ہیں. اس لیے کسی نئے فیصلے کے منظر، پس منظر کو سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ غور و فکر کے بعد دارالعلوم کی اچھی چیزوں کی تعریف کرتے اور اس کی بعض چیزوں سے اختلاف بھی کرتے نظر آتے ہیں. 


اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کو اپنی انتظامی و تعلیمی پالیسی بنانے کا پورا اختیار ہے. دارالعلوم دیوبند بھی یہ حق رکھتا ہے. اس کی انتظامیہ کو کسی باہری شخص کو جواب دینے اور کسی کے سامنے صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے. جو *دانشور* مکمل صورتحال جانے بغیر مضامین پر مضامین لکھ رہے ہیں، محض ان کی جانکاری کے لیے اطلاع دی جاتی ہے کہ دارالعلوم نے یہ فیصلہ اس لیے نہیں لیا ہے کہ وہ انگریزی یا کمپیوٹر پڑھنے کا مخالف ہے یا وہ سرے سے اس کی اہمیت کا منکر ہے. اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے تو وہ شخص یا تو غفلت کے گڈھے سے نکل کر آیا ہے یا بہت بڑا دجال ہے. دارالعلوم میں سالوں سے انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم کا نظم ہے. تکمیلات کے شعبوں میں یہ شعبے بڑے متحرک و فعال مانے جاتے ہیں. ( نوٹ: اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ان شعبوں میں پڑھنے والوں کی تعداد نہایت محدود ہے. مدرسہ کی تعلیم کے دورانیہ میں طلبہ کو خارج میں انگلش پڑھنے سے روکنے کی ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ سوم چہارم کے سالوں میں یومیہ صرف نصف گھنٹہ انگلش کا رکھ دیا جائے تاکہ طلبہ ادارے ہی میں معیاری انگلش پڑھ سکیں. انگلش اب مجبوری یا کہیے ضرورت بن چکی ہے. اس کے بغیر ایک عالمِ دین عصری ضرورتوں ہر پورا نہیں اتر سکتا اور انگریزی سے ناواقف ہونے کی بنا پر نفسیاتی طور پر مایوس اور خود اعتمادی سے محروم زندگی گزارتا ہے).


 اس فیصلے کے پس پردہ اصل وجہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں دکھاوے کے طلبہ کی ایک تعداد جمع ہو گئی ہے جو شوق سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نہیں آئی ہے بلکہ کسی مجبوری یا حادثے نے انہیں یہاں پہنچا دیا ہے. وہ مدرسہ کی تعلیم کی اہمیت سے واقف بھی نہیں اور اس کی عظمت کے دل سے قائل بھی نہیں. یہ لوگ دارالعلوم میں صرف وقت گزاری کے لیے ٹھہرے ہوئے ہیں. امتحان کے ایام میں تھوڑی بہت محنت کرکے پاسنگ مارکس لے آتے ہیں تاکہ داخلہ بچا رہے اور علمی ترقی نہ سہی، درجاتی ترقی ہوتی رہے. باقی پورے سال یہ اسباق سے بکثرت ناغہ کرتے اور انگلش اور کمپیوٹر کی پابندی کرتے ہیں. درسگاہ میں قرآن، حدیث، فقہ،تفسیر کی کتابیں سامنے رکھ کر انگریزی رٹتے اور مشقیہ جملے بناتے ہیں. ان طلبہ کے لیے دارالعلوم ایک فری کے ہوٹل سے زیادہ کچھ نہیں ہے. ایسے طلبہ کے لیے دارالعلوم میں رہنا، کھانا پینا، سونا، بجلی پانی کا استعمال کرنا سب ممنوع ہے. اسے گروہ کی تعداد کوئی کم نہیں ہے، اور اس پر بندش لگانے کے لیے سخت اقدام کے علاوہ کوئی اور چارا نہیں ہے. ان کی صورتحال کے پیش نظر دارالعلوم کا فیصلہ صد فیصد درست (مگر کافی لیٹ) ہے. 


اس مخصوص گروہ کے علاوہ ایک اچھی خاصی تعداد ان طلبہ کی ہے جو باقاعدہ طالب علم ہیں. دینی تعلیم حاصل کرنا ان کا مقصد ہے. اس تعلیم کی اہمیت و عظمت سے بھی وہ واقف ہیں لیکن انہیں اندیشۂ فردا نے گھیر رکھا اور مستقبل کے خطرات نے انہیں دبوچ رکھا ہے. انہیں علم ہے کہ شب و روز کی محنت، اسباق کی مکمل پابندی، اعلیٰ سے اعلیٰ نمبرات اور عمدہ سے عمدہ صلاحیت کے باوجود ان کی قسمت کا فیصلہ چند ہزار تنخواہ کی صورت میں ہو چکا ہے. خود دارالعلوم کے *رابطہ مدارس اسلامیہ" سے وابستہ مدرسوں میں معلمین نانِ شبینہ کے لیے ترستے ہیں اور بنیادی ضروریات کے بقدر " تن خواہ" بھی نہیں پاتے ہیں. انہوں نے ان استاذہ کی دلخراش داستانیں سن رکھی ہیں. انہیں یہ بھی شکوہ ہے کہ ہمیں توکل، قناعت پسندی، سادگی وغیرہ کی نصیحتیں کرنے والوں کی کوٹھیاں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ان کے مال و دولت نے قارون کے خزانوں کی یاد دلا دی ہے. وہ اس دو رخی پالیسی بلکہ منافقت سے دل برداشتہ، مستقبل سے مایوس اور سماجی، ملکی، خاندانی، علاقائی حالات سے خوف زدہ ہو کر انگلش کمپیوٹر کی تعلیم کی طرف رخ کرتے ہیں تاکہ کم از کم اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ بھرنے کے بقدر حلال روزی تو مل سکے. یہ بالکل سچ ہے کہ درسِ نظامی ایسا تفصیلی اور دقیق ہے کہ اسے جس طرح پڑھنا چاہیے اسی طرح پڑھا جائے تو کسی اور کام کے لیے ذرہ برابر وقت نہیں مل سکتا لیکن طلبہ کا یہ گروہ مجبور ہے، اس کے سوالات اور اندیشے اپنی جگہ درست ہیں اور ان کا کوئی سنجیدہ جواب ذمہ داروں کے پاس نہیں ہے. کوئی لائحہ عمل نہیں ہے. کوئی محکم نظام نہیں ہے. محض بصیرت سے عاری تقریریں ہیں جنہیں سننے والے بہت پہلے تھکن اور مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں. یہ مظلوم گروہ بھی اس فیصلے کی زد میں آئے گا اور دین و دنیا میں سے ایک کا بھاری نقصان اٹھائے گا.


اگر کوئی ان حالات کو حقیقی معنی میں بدلنا چاہتا ہے جن کی بنا پر وقتاً فوقتاً اس قسم کے اعلانات کرنے پڑتے اور قوانین بنانے پڑتے ہیں تو اس کے لیے بصیرت، ضمیر و احساس، دور اندیشی، قوتِ فیصلہ کے ساتھ ضروری ہے کہ ملکی و عالمی حالات پر گہری نظر ہو، زمانے کی نبض پر ہاتھ ہو، دعوتِ دین، دفاعِ دین کے لیے ضروری عصری علوم اور جدید علمی اسلحہ کی خبر ہو، تمام تر علمی صلاحیتوں کے باوجود مولوی طبقہ کو درپیش معاشی مسائل کی وجوہات کا ادراک ہو اور انہیں دور کرنے کا ارادہ ہو، اصلاحِ نصاب، اصلاحِ نظام، اصلاحِ اسلوبِ تدریس کی ضرورت کا بخوبی علم ہو، طلبہ کی کثرت در کثرت سے زیادہ معیار ہی اصل الأصول ہو، مدارس کے مجموعی نظام میں شفافیت اور عمدگی لانے کی سنجیدہ کوششیں ہوں، الفقر فخری کی ذہن سازی کے ساتھ *الید العليا خير من اليد السفلى*، *التاجر الصدوق الأمين مع النبيين، والصديقين، والشهداء* جیسی حدیثوں کا علمی و عملی درس ہو.... 


بظاہر یہ چیزیں الگ الگ ہیں، لیکن آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ہر چیز دوسرے سے جڑی ہوئی ہے. صرف ایک چیز کو درست کرنے سے حالات نہیں بدلیں گے. ان سب مربوط چیزوں کو بدلنے اور سب میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے. اصل مسائل کے حل کی جانب توجہ دئے بغیر ان سے پیدا شدہ ظاہرہ جزوی مسائل کے حل کی کمزور کوششیں کرنا ایک خوفناک مذاق اور افسوسناک واقعہ ہے. یہ دکھاوے اور ضیاعِ وقت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے