65a854e0fbfe1600199c5c82

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علمی سفر ... ہمارے لیے اسباق (دوسری قسط)

 میری خوشی کی انتہا نہیں کہ الحمد للہ جو لوگ تدبر قرآن کے سفر میں ہمارے ساتھ جڑ چکے ہیں، ایک ایک آیت سے اپنی زندگی کےلیے اسباق اور ہدایات نکال رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس کتاب کو الماریوں میں سجانے کے بجائے دل کے نہا خانوں میں سجائیں اور اپنی زندگی میں اس سے رہنمائی لیں۔ اسے سمجھیں اور عمل کریں۔


گذشتہ کل کی آیت میں طلبہ و طالبات کی ایک اچھی تعداد نے تدبرات کیے جو میں نے ایک تحریر میں شیئر کیے۔ ذیل میں مزید کچھ نکات کو اسی آیت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ 


آیت:


فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا


پھر جب دونوں (یعنی حضرت موسی اور ان کے ساتھ ان کا نوجوان شاگرد) آگے نکل گئے، تو موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ : ہمارا ناشتہ لاؤ، سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس سفر میں بڑی تھکاوٹ لاحق ہوگئی ہے۔(سورت کہف)


1: اس سے معلوم ہوا کہ کبھی آپ کو اس لیے بھی تکلیف دی جاتی ہے تاکہ اس کے بدلے آپ کو اصل منزل یاد کروائی جائے۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کئی کئی سالوں سے زمین کے بارے میں چلنے والے جگھڑوں کو صرف ایک قریبی عزیز رشتہ دار کی وفات پر آخرت یاد آنے سے ختم کر دیا اور صلح کر لی۔ کتنے لوگ اُس وقت راہ راست پر آجاتے ہیں جب ان پر کوئی چھوٹی یا بڑی مصیبت آتی ہے۔ یہ بھی در اصل اللہ کی محبت ہی ہوتی ہے کہ وہ آپ کو تکلیف دے کر اصل مقصد کی طرف موڑ دیتا ہے۔ جیسے موسی علیہ السلام کو بھوک کی شدت دے کر واپس موڑ دیا۔


2: تھکان اور مشقت کے بعد ہی انسان کو آسانی ملتی ہے۔اگر آپ کسی بڑی منزل کے مسافر ہیں اور ابدی عزتوں کے حاملین میں اپنا نام درج کروانا چاہتے ہیں تو جسم کو مشقت کی بھٹی سے گزارنا پڑے گا۔ آگ میں تپ کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔خواب دیکھنے پڑتے ہیں اور پھر ان خوابوں کی تکمیل کےلیے چٹانوں کی طرح مضبوط رہنا پڑتا ہے، ایسے لوگوں کا زاد راہ ہمیشہ صبر ہوتا ہے۔جسم کا تھکاوٹ سے چور ہو جانا کسی بڑے دنیاوی یا دینی مقصد میں آپ کو سرخرو کر سکتا ہے۔ وہ تھکان ہی تھی جس نے حضرت موسی کو حضرت خضر سے ملا دیا۔ اگر آپ بھی اپنے مقصد سے ابھی دور ہیں تو حضرت موسی کی طرح سفر پر نکل کھڑے ہوں،ایک نہ ایک دن منزل پہنچ ہی جائیں گے۔ صرف آئیڈیاز ہی پیش کرتے رہنا اور کام چور ہو کر جسم کو تھکن سے بچانا چھوٹے لوگوں کا شیوہ ہے۔


3: یہاں حضرت موسی علیہ السلام نے اکیلے کھانا کھانا شروع نہیں کیا بلکہ اپنے ساتھ خادم کو بھی بٹھایا۔ معلوم ہوا کہ آپ چاہے اپنی فیلڈ میں کتنے ہی بڑے عہدے اور مرتبے پر کیوں نہ ہوں، کبھی کبھار اپنے خادموں اور نوکروں کے ساتھ بھی کھانا کھا لیا کریں۔ اس سے ماتحت لوگوں کی دلجوئی بھی ہوتی ہے اور ان کے دل میں محبت بھی بڑھتی ہے۔


4: یہاں حضرت موسی نے کتنی پیاری تعبیر اختیار کی کہ ہمارا کھانا لے آؤ یعنی ہم دونوں کا۔ بعض بڑے مرتبے اور چھوٹے دل والے لوگوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ مجھے کھانا دے دو۔ اس سے شاگرد اجنبیت محسوس کرتا کہ انہوں نے صرف اپنے لیے کھانا لانے کا مطالبہ کیا ہے۔الفاظ کا چناؤ آپ کے ماتحت لوگوں کے دل میں آپ کی باتوں کی تاثیر پیدا کرتا ہے۔


5: یہاں حضرت موسی نے ظاہری بدن کی تھکاوٹ کو بیان کیا لیکن دل کے ٹوٹنے یا کبیدہ خاطر ہونے کا ذکر نہیں کیا کہ یار میں تو اب مایوس ہو گیا ہوں کہ منزل مل ہی نہیں رہی۔ جیسے ہم جب کسی منزل کے مسافر بنتے ہیں اور وہ نہ مل رہی ہو تو کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد دل شکستہ ہو کر اسے چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہاں سے سبق ملا کہ اگر منزل نہیں بھی نظر آ رہی اور آپ کا بدن بھی تھکن سے چور چور ہے تو تھوڑا سا آرام ضرور کر لیں لیکن ہمت مت ہاریں۔ عین ممکن ہے جب آرام کے بعد اٹھیں تو منزل پالیں جیسے حضرت موسی نے پالی۔


6: یہاں حضرت موسی نے صرف اپنی تھکاوٹ کا ذکر نہیں کیا کہ میں تھک گیا ہوں بلکہ خادم کا بھی ذکر کیا جس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے کام کرنے والے لوگوں کی تھکاوٹ کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں۔ انہیں بھی تھکاوٹ لاحق ہوتی ہے، انہیں بھی آرام کی ضرورت ہے۔


7: یہاں حضرت موسی علیہ السلام تھک ہار کر جب بیٹھے تو سوچا ہوگا کہ اب کیا کیا جائے؟ منزل کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ اسی دوران ان کے نوجوان خادم کو مچھلی کا پانی میں کھسک کر چلے جانا یاد آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے مقصد کے حصول میں جب بظاہر ناکامی سی محسوس ہونے لگتی ہے تو رب محبت انہی لمحات میں اچانک سے کامیابیوں کا دروازہ کھول دیتا ہے۔


8: جب آپ اپنے خادمین کے ساتھ غلام کے بجائے رفیق کی طرح سلوک کرتے ہیں تو پھر وہ اپنی ذمہ داری کا بوجھ بھی بخوشی اٹھاتے ہیں جیسے یہاں حضرت موسی نے خادم کو کھانے اور تھکاوٹ کے معاملہ میں اپنا رفیق سمجھا تو نوجوان نے پھر اگلی آیت میں مچھلی کو بھول جانے کی نسبت صرف اپنی طرف کی کہ یہ میری ذمہ داری تھی لیکن شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ حالانکہ قرآن نے ایک دوسری آیت میں "نسیا حوتھما" کے الفاظ ذکر کیے ہیں یعنی وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے تھے۔


9: یہاں نوجوان شاگرد نے غلطی کا اقرار کیا تو حضرت موسی نے انہیں تھکاوٹ کے باوجود ڈانٹا نہیں کہ دیکھو تم نے خواہ مخواہ منزل مقصود سے اتنا آگے سفر کروا دیا۔ پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟ نہیں ایسا نہیں بلکہ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اوہ!یہ تو وہی جگہ تھی جس کی ہم تلاش میں تھے۔کیا آپ بھی اپنی اولاد اور شاگردوں کے اعذار کو قبول کرتے ہیں؟؟


10: یہاں حضرت موسی کو تھکاوٹ ہوئی تھی تو کھانا طلب کیا۔ معلوم ہوا کہ بھوکے شخص کےلیے راحت نہیں ہے۔ جب تک بھوک ستاتی ہے، انسان آگے سفر بھی نہیں کر سکتا۔


آج کل لوگ کہتے ہیں کہ پہلے Kitchen Money کا بندوبست کر لو پھر بڑے قدم اٹھاؤ تاکہ پیٹ تو بھرتا ہی رہے۔ اگر اتنا بجٹ بھی نہیں بنا سکے تو بڑے قدم نہیں اٹھا سکتے۔


11: کسی جاننے والے کو اپنا غم اور تکلیف بتانا تسلیم و رضا کے خلاف نہیں ہے۔ ہاں اس کی کوشش ہو کہ یہ تکلیف بتانا شکوہ و شکایت کے درجے کو نہ پہنچے۔


12: جو لوگ آپ کے مقصد میں آپ کا تعاون اور دست و بازو بنتے ہیں، ان کا احساس آپ کی اولین ذمہ داری ہے۔


13: اگر اللہ تعالی چاہتے تو حضرت موسی کو خضر سے براہ راست ملوا سکتے تھے لیکن علم کے حصول کےلیے انسان کو مشقتوں کی گھاٹیوں سے گزر کر آنا پڑتا ہے، پھر ہی جاکر انسان کچھ حاصل کر پاتا ہے۔ کیونکہ علم کا راستہ در اصل جنت کا راستہ ہے اور جنت کے راستے پر چلنے والوں کو اتنا آزمایا جاتا ہے کہ وہ کہہ اٹھتے ہیں:


اللہ کی مدد کب آئےگی؟؟؟


14: حضرت موسی کا یہ سفر علم کی خاطر تھا لیکن ہم میں سے ہر ایک شخص بھی اس دنیا میں ایک مسافر ہے جو آخرت کی طرف سفر کر رہا ہے۔ اس دوران ہم کبھی کبھار سفر کرتے ہوئے اپنی منزل سے ہٹ جاتے ہیں اور مقصد زندگی ہی کو بھول بیٹھتے ہیں۔ تو ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ دیر ٹھہر جائیں، سوچیں اور پھر واپس روحانیت اور صراط مستقیم کی طرف لوٹیں۔


مولانا محمد اکبر

7 جون 2023ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے