65a854e0fbfe1600199c5c82

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

 آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔


(ناصرالدین مظاہری) 


وہ دور میں نے نہیں دیکھا البتہ ان لوگوں کو خوب دیکھا ہے جنھوں نے نہ صرف ان مناظر کو دیکھا بھی بلکہ محفوظ بھی کیا اور زبانی ہی سہی اگلی نسلوں تک پہنچانے کا کام بھی کیا ہے، لیکن سینہ بسینہ انتقال اور زبان در زبان نقل سے بہت سی تبدیلیاں واقع ہوتی چلی جاتی ہیں، الفاظ بدلتے چلے جاتے ہیں، محاکات کی ندرت ماند پڑتی چلی جاتی ہے، اب نہ وہ دماغ رہے، نہ حافظے، نہ وہ غذائیں رہیں نہ رابطے، نہ وہ شرافت بھری زندگی رہی نہ واسطے،اب "خلافت" خالی آفت بن گئی، اب شرافت کو شر و آفت سے بدل دیاگیا،تعبیرات بدل دی گئیں، برہنگی کو "فن کاری" کہاجانے لگا، عریانیت کو" فیشن" کا نام دے دیاگیا، اخلاق باختگی "ترقی" ٹھہری، صنفی بے راہ روی "جمہوریت" بن گئی، گالی گلوچ "آزادی رائے" قرار پائی، خرد کا نام جنون رکھ دیا گیا، جنون اور دیوانگی کو عقل و دانش سے یاد کیاجانے لگا مرض مرض نہیں رہا، مریضوں نے اپنے نظرئیے بدل لئے، بیماریاں خوبیاں بن گئیں، بدنظری، فحش کلامی اور حیاسوزی نے"فلرٹنگ" کا جامہ پہن لیا، سچ ہی تو کہا ہے شاعر مشرق نے :

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں

جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں


اصاغر کے اس جھرمٹ میں اکابر کی یادیں بہت ستاتی ہیں، خاندانی قدروں کو پامال ہوتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے، شرافت کے جنازے کو اوباش جب کاندھا دیتے ہیں تو دل پر جو گزرتی ہے زبان پر نہیں آسکتی 


اک ٹیس جگر میں اٹھتی ہے اک درد سا دل میں ہوتا ہے 

ہم رات کو رویا کرتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے 


 پہلے ہر چیز کی حدود تھیں اب حدبندیوں کو توڑدیا گیا ہے، اب کے مقابلے پہلے کے سارے ہی لوگ بہتر تھے، انسانی شرافت کا عکس جانوروں میں نظر آتا تھا، کتے تک تہذیب کا مظاہرہ کرتے تھے، شعور کا اظہار کرتے تھے، قانون فطرت کا لحاظ رکھتے تھے، اس زمانے میں جب لوگ گاؤں سے دور جھاڑیوں، جنگلوں، کھیتوں میں ہلکے ہوتے تھے تو اسی زمانے میں کتوں کی بھی یہ حالت تھی کہ بول و براز صاف جگہ پر نہیں کرتے تھے، میں نے سہارنپور مظاہرعلوم کی دو عمارتوں رواق مظفر اور دارقدیم کے درمیان واقع گلی کی ایک نالی میں ایک کتے کو پاخانہ کرتے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ کتے جفتی کے لئے بھی عوامی جگہوں سے بچتے تھے لیکن آہ! اب کی نسل نے کتوں کو پیچھے چھوڑ دیا، کتے ہمیشہ پیشاب سے بچتے ہیں اور انسانی شکل میں چلتے پھرتے کتے پیشاب سے بالکل احتیاط نہیں کرتے، گویا کتوں میں انسانیت پائی گئی اور انسانوں میں حیوانیت دیکھی گئی:


آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں 

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے