آج یومِ عرفہ ہے، افضل ترین دن اور مسلمانوں کی عید !
اور ایک وہ یوم عرفہ تھا جب
مقام: عرفہ کا میدان
وقت: ہجرت کا دسواں سال
خیر البشر کا الوداعی خطاب اور الوداعی زیارت ۔
ہم اس دن اور اس مقام سے تھوڑا سا، فقط تئیس سال پیچھے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مکہ کے تپتے صحرا اور سنگلاخ پہاڑوں میں گھرے بلندی پر واقع ایک تاریک غار میں تن تنہا ایک بندہ اترتا ہے، اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی تلاش کرتا ہے، اور جب وہ اس غار سے واپس آبادی میں اترتا ہے تو اس کا قلب مقدس چراغ میں ڈھل چکا ہوتا ہے جس سے دنیا بھر کے قلوب نے روشنی پانی ہے! اب چراغ سے چراغاں ہونے کی ابتداء ہوچکی ہے.
اُمی کا لقب پانے والا جبلِ نور میں "اقرا باسم ربك " کے اس لمحہِ عطا سے کشید کیے گئے علم سے، پڑھے لکھے لوگوں، فلسفیوں، مفکروں اور سرداروں کو نافع انسان بننے کی تعلیم دے گا!
اس لمحے سے، دُرِ یتیم دنیا کے مردوں کو اچھا باپ بننے کی تربیت دے گا!
اس لمحے سے، طائف کا مظلوم جس نے بچپن میں اپنی ماں کو کھو دیا، وہ دنیا کی عورتوں کو سکھائے گا کہ اچھی مائیں کیسے بنتی ہیں!
اس لمحے سے، وہ جو گھڑ سواری میں کوئی خاص شہرت نہیں رکھتا ہے ، وہ دنیا کے رہنماؤں کو جنگوں کے منصوبے اور جنگجوؤں کو حکمتِ عملی بنانا سکھائے گا!
اس لمحے سے، وہ غریب آدمی جو مالدار قریش کے سامان کی تجارت کرتا تھا، اونٹ اور بھیڑیں چراتا تھا، دنیا کے امیر لوگوں کو زکوٰۃ کا قانون سکھائے گا، خیرات کی ترغیب دے گا، مال غنیمت تقسیم کرے گا، اور سرمایہ داروں کو اپنا گھر بار راہ خدا میں وقف کرنے کی ترغیب دے گا!
یہ وہ چیدہ چیدہ کامیابیاں ہیں جو غار حرا کا مسافر الوداعی خطبہ سے پہلے حاصل کرے گا.
لیکن اس الوداعی زیارت کی منزل کے لیے راستہ آسان نہیں تھا، بلکہ رستہ تو تھا ہی نہیں !
ایک نوجوان کی زندگی کے قیمتی ترین سنہری سال تھے، جو تئیس برس رستہ بنانے اور اس منہج کی آبیاری کرتے مشکلیں جھیلتے گزار دیئے ۔
ورقہ بن نوفل نے تو سراج منیر کو غار سے اترنے کے پہلے ہی لمحے سے بتا دیا تھا کہ اس کی قوم اسے نکال دے گی۔
وہ وادی، جس سے وہ پیار کرتا تھا، اس پر تنگ کر دی گئی ، اور اس کے اپنے قریبی لوگوں نے اس معصوم کو جان سے مارنے کی سازش کی جنہیں وہ بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانے آیا تھا!
ہائے وہ جو روشنی کا پیامبر تھا اسے اندھیرے کی آڑ میں اپنے پیاروں اور اپنے پیارے شہر سے ہجرت کرنا پڑی، مزمل کے ہمراہ رفیقِ غار تھا اور تیسرا ان دونوں کا رب تھا!
اس نے باصلاحیتوں کی طرح انصاف پر مبنی ریاست قائم کی ، بہادروں کی طرح معرکوں میں اترا اور طاقتور اور کمزور دونوں کی قیادت کی، زیرک لیڈروں کی طرح معاہدے کیے، اور مدبر سیاست دانوں کی طرح اتحاد قائم کیا۔
پھر وقت نے کروٹ بدلی رات کی تاریکی میں ہجرت کرنے والا، روشن دن کے اجالے میں ان چار دروازوں سے فاتح سرادر کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے کے لیے واپس آیا، جو اس پر اس کے اپنوں نے بند کردیئے تھے !
جہاں تک ان تئیس برسوں کے بعد کی بات ہے تو وہ غار حرا کا مسافر اب جبل عرفات پر ہے، اس کے ساتھ ایک لاکھ چالیس ہزار جان نثار ہیں، جو سب کے سب اس انتظار میں ہیں کہ مبلغِ کائنات خطاب کریں تاکہ وہ جسم و جاں سے اسے سنیں، پور پور میں حرف حرف جذب کریں ، انہیں جو کرنے کا حکم ملے وہ تن من دھن سے اس پر تعمیل کریں ، پھر کوہ عرفات پر سب سے معزز آواز نے کلام کیا:
سننے والے خاموش ہو کر یوں مؤدب ہوگئے جیسے ان کے سروں پر پرندے اتر آئے ہوں، اگر انہوں نے جنبش بھی کی تو یہ طیور اڑ جائیں گے.
پہاڑوں کے درمیان شیریں لہجے والا کہہ رہا تھا،
سنو میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد میں اپنی اس حیثیت میں دوبارہ آپ سے ملاقات کر سکوں گا یا نہیں !
درحقیقت اس کے قلب پر منکشف ہوچکا تھا، وعدے کی تکمیل ہوچکی تھی،جو فرض تو وہ ادا ہوچکا تھا، پیام تھا جو ذمہ داروں تک پہنچا دیا گیا تھا، وہ والفتح جو رب کی جانب سے فتح مبین تھی وہ رب کی نصرت سے قائم ہوچکی تھی !
اور وہ اپنے تئیس سالہ سفر کا نچوڑ پیش کرنا چاہتا تھا، تو ایسا ہی ہوا، وہ آخری خطبہ انسانیت کے لیے ایک ایسا منشور تھا جس کی نظیر اس سے قبل موجود نہیں تھی. فاتح، عجز و انکسار کا پیکر بنا مخاطب تھا!
اے لوگو، تمہارا خون اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرمت والی ہیں جیسے تمہارے لیے یہ دن، یہ مہینہ ، یہ شہر. کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں نے اپنے ذمے پیغام کو تم تک ایمانداری اور انصاف سے ٹھیک ٹھیک پہنچایا ؟ اصحاب کی گواہی کے بعد، پیکرِ رحمت نے بآواز بلند پکارا "اے خدا تو بھی گواہ رہنا!
مگر ہم نے اس ابدی پیغام کے ساتھ کیا حشر کیا؟
ہم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگے، ایک دوسرے کی عزت پر حملہ آور ہوگئے اور ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے لگے.
اس نے جس بات کی دعوت دی تھی اسے ہم نے نہیں سنا، اس نے جو بات بتائی وہ ہم نے نہیں مانی، اس نے جو نصیحت کی اس پر ہم نے عمل نہیں کیا، اور اس نے جو یاد دلایا وہ سب ہم بھول گئے !
یقیناً ایسے لوگ ہوں گے جن کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی شفاعت کو روک دے گا اور اس سے فرمائے گا: تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد تمھارے دین کے ساتھ کیا کیا.
پہلا حصہ، جاری ہے....
توقیر بُھملہ
0 تبصرے