65a854e0fbfe1600199c5c82

کوشش کے باوجود اولاد دین پر نہیں آرہی قسط (2)

 اب یہ سوال اہم ہے کہ خود اولاد کے اندر کیسے اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور دین کی روح ان کی روح میں اترے؟ اس کا جواب اور اس جیسے ملتے جلتے دو اور سوالوں کے جوابات قرآن کریم نے ایک جملے میں دیے ہیں۔پہلے ہم دو سوالوں کو دیکھ لیتے ہیں۔


پہلا سوال: 


یہ سوال میری ذات سے متعلق ہے جس کے بارے میں، میں اکثر سوچتا بھی ہوں اور اندر ہی اندر کُڑتا بھی رہتا ہوں کہ میں اپنی ذات میں نیک بننے کی کوشش کرتا ہوں لیکن فیل ہو جاتا ہوں۔


 کئی بار ارادہ کیا کہ آئندہ نماز نہیں چھوڑوں گا لیکن مہمان آئے تو چھوٹ گئی، سفر پر روانہ ہوا تو قضا ہوگئی،آفس، دکان یا کلاس میں بیٹھا تھا تو رہ گئی۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ میں پختہ ارادہ کرنے کے باوجود نیکی کے وقت حالات کے ساتھ جھک جاتا ہوں۔باد مخالف کا ہلکا سا جھونکا مجھے گرا دیتا ہے اور میرا ایمان متزلزل ہونے لگ جاتا ہے۔


اسی طرح ایک ڈگر پر میری زندگی چل رہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ لوگ کہتے ہیں کہ رمضان متقی بنانے کےلیے آتا ہے لیکن میں تو جیسے رمضان سے پہلے تھا، ایسے ہی رمضان کے بعد بھی ہوں۔ تقوی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ 


قرآن نے کہا کہ نماز بے حیائی سے روکتی ہے ، مجھے نماز پڑھتے پڑھتے بیس، چالیس یا ساٹھ سال گزر چکے ہیں لیکن نظریں اب بھی گندی ہیں۔ خیالات وجذبات اب بھی نجاست زدہ ہیں۔


زکوۃ کا مقصد تطہیر و تزکیہ بتایا جاتا ہے۔ میں کئی سالوں سے زکوۃ، صدقات، فطرانہ ادا کر رہا ہوں لیکن کبھی یہ صدقات دیتے وقت محسوس نہیں ہوا کہ میرے باطن کی تطہیر ہو رہی ہے۔


لوگ کہتے ہیں کہ قرآن ایک نور ہے جب آپ اس کی تلاوت کرتے ہیں تو اس کا نور آپ کے دل کی گہرائیوں میں اترتا ہے، مجھے تو کبھی محسوس نہیں ہوا؟ بلکہ بعض دفعہ تو تلاوت کرنے کا دل ہی نہیں کرتا۔


میں بسا اوقات لوگوں کو بھی نیکی کی تلقین کر دیتا ہوں لیکن خود اس نیکی سے خالی ہوتا ہوں۔ کبھی مجمع میں کوئی اچھی بات کہہ دی لیکن تنہائی میں خود ہی اس کے خلاف کر دیا۔ کبھی بچے یا بچی کو اپنے پاس بٹھا کر ڈھیروں نصیحتیں کر دیں لیکن خود ان سے کوسوں دور محسوس کرتا ہوں۔ اپنی اولاد اور والدین کے سامنے میری دینی کیفیت اور ہوتی ہے لیکن جب باہر شاپنگ، آفس، تعلیم وغیرہ امور کےلیے نکلتا ہوں تو مخلوط ماحول میں میرے اندر کا شیطان فورا سے جاگ جاتا ہے۔ اگر کہیں کرپشن کا موقع مل جائے تو ہاتھ سے نہ جانے دوں۔ 


سو میرے اس سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ میں خود اپنے آپ سے لڑ رہا ہوں کہ میں کیوں آدھا دین دار ہوں کہ میرے قول و عمل میں تضاد ہے۔ ارادوں اور نیتوں میں عدم استحکام ہے۔ فتنوں اور گناہوں کے جھونکوں سے بکھر جانے کی خامی ہے۔ میری نماز کیوں کرپشن سے نہیں روکتی۔ میری تلاوت میرے جذبات کو صحیح رخ کیوں نہیں دیتی۔ میں آفاق میں کیوں گم ہوں، آفاق مجھ میں کیوں نہیں گم ہوتے۔ میری بنیادی غلطی کیا ہے جسے مجھے درست کرنے کی ضرورت ہے کہ میں ایک مضبوط اور طاقتور مومن بن جاؤں۔ معصیت کی کوئی بھی طوفانی آندھی میرے ایمان و اعمال کی جڑوں کو اکھاڑ نہ سکے اور دین میری روح کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ نیک اعمال میری طبیعت بن جائیں اور ہر عمل کو اس کے جوہر کے ساتھ کرنے لگ جاؤں۔؟؟؟؟


دوسرا سوال: 


یہ سوال ہم دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں اور جب موقع ملے تو تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ 


فلاں شخص نماز میں تو تکبیر اولی کا پابند نظر آتا ہے لیکن دکان میں جھوٹ بولتا ہے۔


فلاں عورت کے ہاتھ میں تو تسبیح ہے لیکن منہ میں زبان کی جگہ تیز دھاری دار تلوار


 فلاں شخص دینی جماعت سے تو وابستہ ہے لیکن گھر کے افراد اس سے پریشان رہتے ہیں کہ اخلاق اچھے نہیں۔


 فلاں شخص اخلاق میں تو بلند پایہ ہے لیکن نماز میں کبھی کبھار ہی نظر آتا ہے۔


 فلاں شخص منبر و محراب پر بیان تو بہت اچھا کرتا ہے لیکن اس کی معاشرتی زندگی اپنے بیان سے متضاد ہے۔


 فلاں بندہ نفلی روزے تو بہت رکھتا ہے لیکن اس کا پڑوسی اس سے تنگ ہے۔


فلاں بندہ نے ظاہری حلیہ تو بہت نیکوں والا بنایا ہوا ہے لیکن اندر سے سانپ ہے۔ 


میرا بیٹا گھر میں تو ابو کے ڈر سے نماز پڑھتا ہے لیکن جب دوستوں کے ساتھ ہو تو چھوڑ دیتا ہے۔


میرا بیٹا میرے سامنے تو موبائل میں نہ گیم کھیلتا ہے اور نہ کوئی بری چیز دیکھتا ہے لیکن دوستوں کے ساتھ فلمیں دیکھنے سے بھی نہیں چوکتا۔ 


بچی گھر سے نکلتے وقت تو حجاب لیتی ہے لیکن شاپنگ مال، پارک، ریسٹورینٹ، سکول یا کالج میں پہنچ کر فری ہو جاتی ہے۔ 


میری کمپنی یا ادارہ کا ملازم میرے سامنے تو سو فیصد درست کام اور مزدوری کرتا ہے لیکن میری عدم موجودگی میں بیٹھا رہتا ہے یا کام بگاڑ دیتا ہے۔


میرا بوس مجھ سے کام تو بہت زیادہ کرواتا ہے لیکن مزدوری کی اجرت کم اور وقت پر نہیں دیتا۔


میرا شوہر باہر دوستوں کے ساتھ تو ہنستا قہقہے مارتا دکھائی دیتا ہے لیکن گھر میں فرعون بن جاتا ہے۔


میری بیوی گھر سے باہر جانے کےلیے تو خوب میک اپ کرتی ہے لیکن میرے سامنے پراگندہ حالت میں رہتی ہے۔


یہ وہ سوچ اور سوال ہیں جو ہم دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کے بارے میں اپنے ذہن میں ایک رائے رکھتے ہیں کہ وہ آدھا دیندار ہے۔ اُس نے دین کو مکمل طور پر سمجھا نہیں اور پھر ہم ان کے بارے میں نیگیٹو تبصرے بھی کرتے ہیں۔


اب اگلی قسط میں ہم قرآن کریم کا ایک جملہ سمجھیں گے جو میرے خیال میں ہمارے ان سوالوں کے جوابات دیتا ہے اور اگر وہی جملہ صحیح معنوں میں ہم خود سمجھ لیں اور اپنے متعلقین بالخصوص اولاد کو سمجھا دیں تو بہت واضح تبدیلی محسوس ہوگی۔ اور اولاد کبھی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوگی۔


مولانا محمد اکبر

4 جون 2023ء

=========

اس سے پہلے والی پوسٹ ⬇️

کوشش کے باوجود اولاد دین پر نہیں آرہی 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے