65a854e0fbfe1600199c5c82

اپنی سوچ بدلئے:

 


سنوسنو!!
اپنی سوچ بدلئے:


ناصرالدین مظاہری


 سفیدچمچماتی کار سے شاندارکوٹ پتلون میں ملبوس ایک صاحب اترے، موچی کی دکان پر پہنچے،اپنے دس ہزارروپے کے جوتے موچی کے سامنے کردئے، موچی نے سفیدبے داغ کاراورشاندارسوٹ بوٹ کے ساتھ قیمتی جوتوں کودیکھ کراپنے پہلے کے آدھے ادھورے کام چھوڑکر رئیس صاحب کے جوتے پالش کئے، جب جوتے پالش ہوگئے تواس امیرنے اجرت معلوم کی،موچی نے وہی عام ریٹ بتائے کہ صاحب بیس روپے ہوئے۔رئیس صاحب نے ناک بھوں چڑھاتے اورپیشانی پرشکنیں اورسلوٹیں لاتے ہوئے اپنے غصہ اورناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ تم لوگ اتنے سے کام کے اتنے زیادہ پیسے لیتے ہو‘‘


یہی رئیس ایک بار نہیں باربارہراتوارکواپنی فیملی کولولومال لے جاتاہے ،وہاں کئی ہزاربلکہ لاکھوں کی خریداری ہوتی ہے،تمام سامان لولومال کے ملازمین کاؤنٹرپرپہنچادیتے ہیں،کمپیوٹرآپریٹربل نکال کررئیس کے ہاتھ میں تھمادیتاہے، رئیس صاحب ایک اچٹتی سی نظربل پرڈالتے ہیں اور رقم ادا کرکے واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں۔


یہاں رئیس صاحب کی زبان گنگ ہوچکی ہے،یہ بھی نہیں پوچھاکہ بھائی موزے کاجوریٹ آپ نے سوروپے لگایاہے یہی موزے منگل بازار میں بیس روپے میں مل جاتے ہیں۔یہاں ہرسامان بازارکے ریٹ سے کئی گنامہنگا دیا گیاہے لیکن مجال ہے کہ مہنگائی کارونا رویا گیاہواوریہی صاحب سڑک پرچلتے چلتے کارروک کرکسی فروٹ والے سے اچھے معیاری پھل کاریٹ معلوم کریں گے،پھراس سے حجت بھی کریں گے،ایک ایک روپیہ کی رعایت چاہیں گے یعنی غریب انسان جومحنت مزدوری کرتا ہے ،جس کے پاس اپنی کوئی ذاتی دکان نہیں ہے،جس کے بچے اس کی یومیہ آمدنی پرپلتے ہیں،جن کے گھروں میں کھاناتب بنے گاجب یہ چندروپے کماکربازارسے خوردونوش کاسامان گھر لے جائے گا۔


کیاکہوں اورکیسے کہوں ،ہماری غیرت مردہ ہوتی جارہی ہے،شاندارقسم کے سیب آپ مارکیٹ سے خریدیں تواسی نوے یاسوروپے میں مل جائیں گے اوراس میں بھی اُس غریب ریڑھے والے کاکچھ نہ کچھ بھلاہوجائے گالیکن آپ کے دماغ میں تودولت مندہونے کاخناس سوارہے آپ بھل منڈی،سبزی منڈی،مارکیٹ وغیرہ میں جانااپنی توہین سمجھتے ہیں آپ یہ سامان ایسے شوروم اوربقالہسے خریدیں گے جونہایت اعلیٰ اورنفیس ہو،جہاں کے شیشے ، پردے، ڈیکوریشن اورٹیپ ٹاپ سے نظریں خیرہ ہوں ،جہاں بڑے بڑے کولڈ اسٹورمیں کئی کئی دن کاسامان پڑا ہواہو گویاتازہ چیزیں کھانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے آپ سے چھین لی ہے، گویاآپ کی جیب سے منافع کے نام کے چندسکے جوکسی غریب کابھلاکرسکتے تھے وہ چندسکے یہاں شوروم میں کوئی اوقات اورکوئی ویلیونہیں رکھتے ،وہاں غریب کولوٹنے کی آپ کی نیت تھی یہاں آپ کولوٹنے کی آپ سے بڑے کی نیت ہے۔چھوٹی مچھلیوں کوبڑی مچھلیاں کھاجاتی ہیں ،ایک بڑی دنیاآپ سے غریب ہے لیکن کچھ ایسے بھی تولوگ ہیں جن کے نزدیک اؑٓٓٓپ کی حیثیت مچھرکے پرکے برابربھی نہیں ہے۔


آپ عام دھوبی سے کپڑے نہیں دھلواتے کیونکہ اس کاریٹ سستاہے لیکن آپ مہنگے ڈرائی کلینرسے کپڑے دھلواتے ہیں کیونکہ وہاں کاریٹ زیادہ ہے،آپ غریب کی دعوتوں میں شریک نہیں ہوتے کیونکہ وہاں عزت توملے گی لیکن مرغ ومسلم نہیں ملے گااورآپ امیرکی شادی میں ضرورجائیں گے کیونکہ وہاں بھلے ہی جانوروں کی طرح کھڑے کھڑے کھاناپڑے لیکن وہاں چمک دمک بہت زیادہ ہے۔


آپ نے اپنی سوچ کادیوالیہ نکال دیاہے ،آپ کی سوچ ہی الٹی ہوگئی ہے،غریب کی نیت اورامیرکی نیت میں زمین آسمان کافرق ہے، غریب خودآپ کے استقبال کے لئے گیٹ پرکیل کی طرح کھڑاہوتاہے اورامیرکے چیلے چپاٹے اپنی اگوائی میں آپ کوڈنگرہال تک پہنچا دیتے ہیں جہاں پلیٹ بھی آپ کوخوداٹھانی ہے،کھانے تک آپ ہی کوجاناہے،کھانے کاانتخاب آپ ہی کوکرناہے ،بیٹھنے کاتوتصوربھی نہیں ہے ،بس گھومتے رہئے ، پیٹ پوجاکرتے رہئے،جتناکھاناہے کھایئے اورپھرچلتے بنئے ،گیٹ تک کوئی چھوڑنے نہیں آئے گا،کوئی آپ کی آمدپرممنون نہیں ہوگا۔وہاں آپ جیسے سیکڑوں ہزاروں گھوم رہے ہیں۔


آپ زومیٹو یاآن لائن کھانے کی کوئی چیز منگواتے ہیں تواس میں سروس چارج الگ سے دیناپڑتاہے، فلپ کارٹ،امازون یاکسی بھی کمپنی سے کوئی بھی سامان منگواکردیکھ لیجئے ڈلیوری چارج الگ سے لکھاہواہوتاہے اوراگر پانچ سوروپے سے زیادہ کاکوئی سامان منگوائیں تونقل وحمل کاچارج نہیں لیاجاتاہے وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ آپ کے سامان کی قیمت سے ہی اتنامنافع لے لیتے ہیں کہ آپ کوپتہ بھی نہیں چلتااوراوپرسے وہ آپ کوخوش کردیتے ہیں کہ ڈلیوری چارج مفت ہے۔


ریڑھے پرگھوم پھرکرسامان بیچنے والوں کی محنت کاآپ اندازہ بھی نہیں لگاسکتے،سردی ہو،گرمی ہو،برسات ہوہرموسم میں یہ غریب موسم کی مارجھیلنے کے ساتھ سڑک کنارے بنی دکانداروں کی ماربھی جھیلتے ہیں ،انھیں کوئی اپنی دکان کے سامنے سڑک پر کھڑا نہیں ہونے دیتا ، بے چارے دربدر،گھرگھر،گلی گلی چکرل گاکر دو پیسے کمانے کی فکرمیں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اورآپ کی نظروں میں یہی گویا’’لٹیرے‘‘ بھی ہیں ۔


اپنی سوچ بدلئے،ایسے غریبوں سے بلاضرورت بھی محض اس نیت سے کچھ خریدلیجئے کہ براہ راست تعاون نہ سہی کم ازکم اس کاسامان تو فروخت ہوجائے گا،چندپیسے منافع کے نام سے آپ کی جیب سے اس کی جیب میں پہنچ جائیں گے اوروہ چندسکے اس غریب کے بچوں کے چہروں پرخوشیاں لانے میں معاون ثابت ہوں گے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے