"الجھنے سے پرہیز کیجیے"
معاشرے میں تفریق یعنی Polarization بڑھ جانے کا ایک عملی مشاہدہ اس شکل میں ہوتا ہے کہ لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے نظر آئیں گے۔
کسی بھی ایسے شخص سے جو کسی معاملے میں آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے جیسے سیاست، معاشرت، معیشت یا دینی اور مذہبی تعبیرات، گھر کے اندر چھوٹے چھوٹے فیصلے۔۔۔
اگر آپ کو لوگوں کے نظریات اور خیالات مشتعل کر دیتے ہیں اور آپ ان کے ساتھ بحث و تحمیص کا شکار ہوجاتے ہیں اور الجھ جاتے ہیں اور اس کے بعد آپ کو جذباتی Emotional اور ذہنی یعنی Mental طور پر اس الجھاؤ سے پیدا ہونے والی کیفیات سے نکلنے میں مشکل کا سامنا رہتا ہے تو۔۔۔
اس کا مطلب ہے کہ ایک تو آپ بھی اس Polarization کا شکار ہوگئے ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ کی Emotional Health اتنی اچھی نہیں ہے کہ آپ اپنے آپ کو اس طرح کے الجھاؤ میں ڈالیں۔
لوگوں سے اُلجھنے سے پرہیز کرنا بہترین حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے۔ سب سے پہلے آپ اپنی قدر کریں کہ آپ ایک اہم اور خاص شخصیت ھیں۔
پھر بیٹھ کر یہ غور کریں کہ آپ کی زندگی کے بڑے مقاصد کیا ہیں؟ آپ نے اپنے لیے کیا اہداف متعین کیے ہیں؟
لوگوں کی رائے، خیالات اور باتوں سے باہر نکلیں اور اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں۔
کہیں ایسا نہ ھو کہ لوگوں کی باتیں آپ کو الجھا کر رکھ دیں اور آپ اپنی منزل کی جانب جاتے جاتے راستے کی ان الجھنوں میں ہی بھٹک جائیں۔
حقیقت کو جانیں اور لوگوں سے الجھنے کی بجائے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اپنے مقاصد اور اہداف حسنہ کی جانب متوجہ رکھیں۔
سیرت کو بار بار پڑھنے سے یہ سبق ملتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنے بدترین دشمنوں سے بھی الجھتے نہیں تھے اور نہ ہی ان سے لمبی بحث و تحمیص کرتے تھے۔ پوری حکمت اور دردمندی کے ساتھ اپنی بات بیان کرتے تھے لیکن سختی کے ساتھ اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔
جب مسلمانوں کا ایک معاشرہ اعتدال کی اس روش سے ہٹ جاتا ہے اور ہر شخص بزعم خود، اپنے آپ کو درست اور دوسرے کو بالکل غلط سمجھتا ہے تو پھر تفریق اور الجھاؤ کے مظاہر جنم لیتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالٰی آپ کو اور ہم کو ایسی عزت دے جو خلق کی محتاج نہ ہو، ایسا رزق دے جو اسباب کا محتاج نہ ہو اور ایسا ایمان دے جو کامل ہو۔ آمین۔
یمین الدین احمد
2 جولائی 2023ء
کراچی
0 تبصرے