65a854e0fbfe1600199c5c82

نئے سال کا آغاز اور ایک دعوتِ فکر

 


✨❄ اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح❄✨

سلسلہ نمبر 339:

🌻 نئے سال کا آغاز اور ایک دعوتِ فکر

(تصحیح ونظر ثانی شدہ)

 

📿 مؤمن کو اپنی اصلاح کی فکر مسلسل دامن گیر رہتی ہے!

حقیقت یہ ہے کہ ایک مؤمن کو یومیہ بنیادوں پر اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے، نیکی کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے اور اپنی کوتاہیوں پر ندامت اور توبہ کرتے ہوئے مسلسل اپنی اصلاح کی فکر دامن گیر رہنی چاہیے، اسے کسی بھی لمحے اپنی اصلاح سے غافل نہیں ہونا چاہیے، یہی ایک مؤمن کا شیوہ ہے۔اسی طرح مؤمن کو اپنے محاسبے اور اصلاح کے لیے کسی سال، کسی مہینے، کسی دن، کسی رات یا کسی مخصوص وقت، موقع اور عمر کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس معاملے میں نفس وشیطان کے کسی مکر وفریب کا شکار ہونا چاہیے، کیوں کہ ممکن ہے کہ اس کا یہ انتظار خدا نخواستہ اس کو کسی بڑے نقصان سے دوچار کردے، اس لیے کہ اس حیاتِ فانی کا بھروسہ ہی کیا! نجانے کب پیامِ اجل آپہنچے اور ہم مہلت نہ ملنے پر کفِ افسوس مَلتے ہی رہ جائیں! حضرت شیخ سعدی رحمہ اللہ ’’گلستانِ سعدی‘‘ میں اسی حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:


خیرے کن اے فلاں! وغنیمت شمار عمر

زاں پیشتر کہ بانگ برآید: فلاں نماند

ترجمہ: ’’اے فلاں شخص! بھلائی کے کام کرو اور اپنی عمر کو غنیمت جانو، قبل اس کے کہ یہ اعلان ہوجائے کہ فلاں شخص دنیا میں نہ رہا۔‘‘

اس حقیقت کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ بات عرض کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جب نیا سال شروع ہوتا ہے تو دل ودماغ پر ایک دستک ضرور پڑتی ہے اور وہ دستک تبدیلی کی دستک ہوتی ہے کہ ایک اور سال ختم ہوچکا اور اک نئے سال کا آغاز ہوگیا۔ اتباعِ شریعت اور روزِ آخرت کو مدّنظر رکھنے والوں کے لیے یہ تبدیلی محض ماہ وسال اور کیلینڈر کی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے ایک دینی اور مثبت تبدیلی کا سنہری موقع سمجھنا چاہیے، کس قدر خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جن کے لیے یہ ماہ وسال کی تبدیلی ایک خوش گوار اور مفید دینی تبدیلی کا بہانہ بن جائے!!


📿 نئے سال کے آغاز میں محاسبہ اور لائحہ عمل:

نئے سال کے آغاز میں ہمارے دلوں میں دو طرح کے جذبات واحساسات پیدا ہونے چاہییں: ایک تو سابقہ زندگی سے متعلق اوردوسرے آئندہ کی زندگی سے متعلق۔ نئے سال کے آغاز میں ہمیں اپنی گزری زندگی کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کا محاسبہ کرنا چاہیے، اس جائزہ لینے کے نتیجے میں ہماری زندگی کے بنیادی طور پر تین طرح کے اعمال سامنے آئیں گے:

1️⃣ نیک اعمال۔

2️⃣ گناہ۔

3️⃣ فضول اور بے کار کام۔

یا یوں کہیے کہ اپنی عمر تین بنیادی چیزوں میں صَرف ہوتی نظر آئی گی:

▪ جو عمر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور شریعت وسنت کی پیروی میں صَرف ہوکر قیمتی بنی۔

▪ جو عمر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ ہوکر وبال بنی۔

▪ جو عمر بے کار اور فضول کاموں میں ضائع ہوئی۔

یہ ساری صورتحال سامنے آتے ہی ہمیں درج ذیل کام کرنے چاہیے: 

1️⃣ ان تینوں میں سے پہلی بات یعنی اطاعت اور عبادات کی توفیق پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، ان نیک اعمال کی قبولیت کی دعا کرنی چاہیے اور مزید عبادت اور اطاعت کی توفیق طلب کرنی چاہیے۔

2️⃣ دوسری بات یعنی گناہوں اور نافرمانیوں پرندامت اور سچی توبہ کرتے ہوئے آئندہ تمام گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرلینا چاہیے۔

3️⃣ تیسری بات یعنی فضول اور بیکار کاموں پر افسوس اور استغفار کرتے ہوئے آئندہ اس سے اجتناب کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔


📿 نئے سال کے آغاز میں تفصیلی دستور العمل:

نئے سال کے آغاز میں ایک مؤمن کے یہی جذبات ہونے چاہییں کہ:

1️⃣ وہ سابقہ زندگی کا احتساب کرکے اپنی کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے آئندہ کے لیے وقت کو قیمتی اور بامقصد بنانے کا عزم کرے۔

2️⃣ اپنے عقائد، اعمال اور اخلاق کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائے۔

3️⃣ نماز، تلاوت، ذکر اور دیگر عبادات سے اپنے آپ کو آراستہ کرے۔

4️⃣ گناہوں کو ترک کرنے کی بھرپور کوشش کرے، اور جو گناہ نہیں چھوٹ رہے ہوں ان کے بارے میں حضرات اہلِ علم اور بزرگانِ دین سے راہنمائی لے۔

5️⃣ اچھے اخلاق اور خدمتِ خلق کو شیوہ بنائے رکھے۔

6️⃣ نیک مجالس کے ساتھ وابستہ ہوجائے اور بزرگانِ دین اور حضرات اہلِ علم کی صحبت اختیار کرے۔

7️⃣ دینی تعلیمات سیکھنے اور انھیں امت کو سکھانے کی ہمت اور سعی کرے۔

8️⃣ اپنی ذات سے لے کر معاشرے تک اور اپنی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک زندگی کے ہر شعبے میں دینی تعلیمات کو زندہ کرنے کا عزم کرے۔

9️⃣ امت مسلمہ کے لیے دعاؤں اور ان کی حالت کی بہتری کے لیے ممکنہ حد تک کوششوں کا اہتمام کرے۔


📿 زندگی کو قیمتی بنانے سے متعلق چھ نکاتی فلسفہ:

زندگی کو قیمتی اور بامقصد بنانے کے لیے چھ نکاتی فلسفہ درج ذیل ہے:

▪جن چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے ان کو اہمیت اور ترجیح دینا اور انھی کو مقصد بنانا۔ 

▪جو کام اللہ کی رضا کے خلاف ہیں ان سے بھرپور اجتناب کرنا۔

▪مباحات یعنی مفید جائز کاموں کو حدود میں رکھنا کہ ان کو مقصد کی بجائے ضرورت سمجھنا۔

▪فضولیات یعنی دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بے فائدہ کاموں میں وقت ضائع نہ کرنا۔ 

▪جو چیزیں مقصد کے حصول میں معاون ہوں ان کو بھی اہمیت دینا۔ 

▪جو چیزیں مقصد سے دور کردیں ان سے دور رہنا۔


⬅️ بالفاظِ دیگر:

زندگی میں سرانجام دیے جانے والے کاموں کی بنیادی طور پر چار قسمیں ہیں:

مشروع کام: جس میں فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات سب داخل ہیں۔ 

مباحات: یعنی مفید جائز کام ۔

لایعنی امور: دنیا اور آخرت میں بے فائدہ کام۔

ممنوع امور: یعنی حرام اور مکروہ کام۔

پہلی قسم یعنی مشروع کام بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اس لیے ان کو اوڑھنا بچھونا بنانا چاہیے کہ یہی زندگی کا مقصد ہیں۔ دوسری قسم مباحات یعنی مفیدجائز کام، یہ بھی زندگی کا حصہ ہیں، ان کے لیے بھی وقت ہونا چاہیے، البتہ ان میں اس قدر انہماک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی وجہ سے مقاصد میں خلل آئے۔ تیسری قسم لایعنی امور سے اجتناب کریں کہ وہ ہر لحاظ سے بے فائدہ اور وقت ضائع کرنے کا سبب ہیں۔ چوتھی قسم یعنی ناجائز کام مقصد میں رکاوٹ بلکہ نقصان دہ ہوتے ہیں، اس لیے ان سے بھی بھرپور اجتناب کریں۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

29 ذو الحجہ1441ھ/ 20 اگست 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے