65a854e0fbfe1600199c5c82

چلو کہ ہم بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہیں

 

سنو!سنو!!
چلو کہ ہم بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہیں


ناصرالدین مظاہری


 دھوپ کی وجہ سے زمین تپ رہی تھی،لگتاتھازمین کوہی تب ہوگیا ہے، سہارنپورریلوے اسٹیشن پرریزرویشن ٹکٹ بنوانے کے لئے فارم کی خانہ پری کررہاتھا،مجھ سے قریب ہی ایک غیرمسلم نوجوان بھی فارم بھررہاتھا، مدرسہ کا ایک طالب خالی فارم کی خانہ پری کے لئے کسی انگریزی سے واقف کار کی تلاش میں تھا،طالب علم اس نوجوان کے قریب پہنچااور گویا ہوا کہ میرا فارم بھی بھردیجئے، اس نوجوان نے ایک نگاہ غلط انداز اس طالب علم پرڈالی اورزہریلے لہجے میں بولا’’ اردویاعربی میں بھرلو‘‘ اس کے لہجے کی کاٹ،لفظوں میں چھپاتمسخر اور زمانے کے ساتھ نہ چلنے کااستہزا سب کچھ اس کے اِن جملوں میں چھپاہواتھا۔میں خوداس کے اس انداز پر چیں بہ جبیں ہوکررہ گیاکہ کتنی صحیح اور کتنی غلط بات کہہ دی ہے۔مجھے اعتراض کاکوئی حق نہیں تھا،کسی کے لہجہ کوناپنے کاآلہ ایجادبھی نہیں ہوا تاہم میں کافی دیر اس طالب علم کی حالت اورکیفیت پرکبیدہ رہا،اس کوفارم میں مطلوب زبان کی لاعلمی نے سربازار رسوا کردیا تھا،یہ رسوائی ایسی تھی جواس کے ہی نہیں میرے تن بدن میں آگ لگاگئی تھی۔مگرافسوس کے سواہم کربھی کیاسکتے تھے ۔


 ہم چاہ کربھی اپنی نسل کواس لائق بنانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پاس نہ اختیارات ہیں،نہ اسباب اور وسائل ہیں نہ قوم ہماری سنے گی،قوم کے درمیان موجود قواموں کے کانوں پرجوں نہیں رینگتی کیونکہ انھیں نہ فارم بھرنے کی ضرورت ہے،نہ ریلوے اڈوں پرلائن لگانے کی ضرورت ہے،نہ ہوائی اورزمینی اسفارمیں کچھ لکھنے کی ضرورت ہے انھیں توہرجگہ کارکن اورکارندے فراہم ہیں وہ اپنے تعیش کے باعث بھول چکے ہیں کہ دنیاآج کس دوراہے پرکھڑی ہے، بھول چکے ہیں کہ ایک بڑی تعداد مطلوبہ ٹرین ،پلین اوربس کے پہلو میں کھڑی ہوکرخوار ہورہی ہے، اپنی لاعلمی کی وجہ سے اپنی سواری پرسوار نہیں ہوپارہی ہے۔انھیں علم ہی نہیں ہے کہ منزل تک پہنچانے والی بسیں ان کے پہلو سےمسلسل گزر رہی ہیں۔ہائے جہالت!ہائے مجبوری!!


 درس نظامی کا فارغ ہرشخص خودکو عالم سمجھتاہے لیکن خود اپنے قلم سے اپنے پاسپورٹ کے فارم کی خانہ پری کرتے وقت خود کے اَن پڑھ اور جاہل ہونے کاتحریری اقرار بھی کررہاہے۔دس پندرہ سال پڑھنے کے باوجود جب ہم اپنے آپ کو’’ جاہل اوران پڑھ ‘‘ہونے کااعتراف کرتے ہیں توسرندامت اورشرمندگی سے جھک جاتاہے۔


 جس زمانے میں درس نظامی مرتب اور مدون ہوا،جوان ہوا،عروج وارتقا نصیب ہوا وہ دور بھی کیا دور تھا، چارسو علما تھے،اہل علم تھے، ہرسو دینی تعلیم کاشہرہ اور فارسی وعربی کاچرچا تھا،فارسی اورعربی کی حالت اُس دور میں بالکل ایسی تھی جیسی آج کے دور میں بھارت میں ہندی اور انگریزی کی ہے ،پرانے زمانے کےغیرمسلموں کی بڑی تعداد کو میں نے دیکھا ہے جو اردو اور فارسی پر بہترین قدرت رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے بچپن میں مروج زندہ زبان حاصل کرلی تھی ،بہت سے غیرمسلم تو قرآن کریم بھی پڑھ لیتےتھے کیونکہ اس زمانے میں پڑھنے والے،پڑھانے والے، پڑھوانے والےسب پرحکومت کی چھاپ تھی اورحکمراں ہم تھے۔لوگ عموماً لباس اور نشست و برخاست وغیرہ کے آداب میں اپنے بادشاہان،امرا اور سلاطین کے طور طریقوں کی پیروی اور اقتداکرتے ہیں الناس علی دین ملوکہم کایہی مفہوم ہے،جب ہمارا طوطی بولتا تھا تو ہمارا نظام تعلیم اور سکہ رائج تھا، آج اُن کا دور ہے تو اُن کانظام اورسکہ رائج ہے ۔


 ہماری آٹھ سو سالہ حکومت کے باوجود نہ ہندی ختم ہوئی،نہ ہندوختم ہوئے،نہ ہندی تہذیب ختم ہوئی سب کچھ محفوظ رہا ہے کیونکہ ان بادشاہوں کوکسی کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، ہمیں بھی زمانے کے ساتھ چلنا بھی ہوگا اور اپنی تہذیب وتعلیم کوبھی سینے سے لگانا ہوگا،ابھی تو ان کی حکومت پرایک صدی بھی نہیں گزری ہے اور حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ارتداد ہماری قوم کے گھروں تک نہیں گلوں تک پہنچ چکاہے۔ہرگھر میں ارتداد یوٹیوب کے ذریعہ، خبروں اور اشتہارات کے ذریعہ ،ٹی وی اور نشریات کے ذریعہ تیزی کے ساتھ ایکسپورٹ اور امپورٹ ہورہاہے اورہم غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔


 اس وقت ہمیں کئی جہتوں پرکام کی ضرورت ہے اورحال یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو فضولیات میں صرف کر رہے ہیں،ہماری قوم کھانے کی طالب ہے اور ہم اسے پانی پیش کر رہے ہیں،ہماری قوم کامعدہ خالی ہے اورہم اسے کتابیں تھما رہے ہیں، ہماری قوم کوسردی لگ رہی ہے اور ہم اسے دستی پنکھے تھمار ہے ہیں،ہماری قوم کوبخارہے اورہم اسے نزلینا دے رہے ہیں۔اندازہ کریں عیدالفطر کے دن عیدالاضحی کا خطبہ پڑھنے والا،شب برأ ت میں شب قدرکے فضائل بیان کرنے والا،یوم عاشور میں قربانی کے مسائل بتانے والا عالم اورعلامہ بلکہ فہامہ اپنی قوم کے لئے کس قدر مفید اور سودمند ثابت ہوسکتاہے۔


 آج جس کو بھی ہندی اورانگریزی کی شدبدہے وہ پورے ملک میں کہیں بھی آنے جانے میں تأمل اورتکلف نہیں کرتااور جس کو کچھ بھی علم نہیں ہے وہ ہر اسٹیشن، ہرہوائی اڈے اور ہرقدم پررسوا اور ذلیل ہورہا ہے۔ہمیں اپنی نسل کی رسوائی قبول ہے لیکن یہ ہم قطعی برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی ہم سے یہ کہے کہ بھائی آپ اپنے بچوں کو کم ازکم اتنی عصری تعلیم تو دلوادیں کہ یہ ٹرین کے بغل میں کھڑے ہوکر ٹرین کاانتظارتونہ کرے۔


 ہمارا بچہ اگر ان کے کالجوں میں داخل ہوجائے تو ایمان سے محروم اور اپنے مدارس میں داخل ہوجائے توعصری تعلیم سے محروم، کیا یہ’’ محرومیت ‘‘ختم نہیں کی جاسکتی ہے اور کیا اللہ اور اس کےرسول نے کسی بھی زندہ زبان کو سیکھنے سے منع فرمایاہے ؟


حضرت مولانامفتی محمدشعیب اللہ خان مفتاحی مدظلہ نے خوب لکھاہے:


 ’’آپ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو سب کچھ بنائیے،ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، تاریخ داں، جغرافیہ داں، ریاضی داں، اورمسلمان کو ان سب علوم و فنون کی ضرورت بھی ہے، مگر اس کے ساتھ آپ پر لازم و ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو خدا پرست بنائیے، نبی کا غلام اور سنت کا عاشق بنائیے، دین کا خادم اورداعی بنائیے اورآخرت کا متمنی و طالب بنائیے، وہ صرف نام کے مسلمان نہیں بلکہ نظر وفکر کے لحاظ سے بھی،عمل و کردار سے بھی، صورت و شکل سے بھی، سیرت و حقیقت کے اعتبار سے بھی، ہر لحاظ سے مسلمان ہوں‘‘۔


 درس نظامی کوئی آسمانی نظام اور وحی کے ذریعہ نازل شدہ کلام نہیں ہے کہ اس میں ضرورت کی چیزیں داخل وشامل نہ کی جائیں، ہم اپنی مرضی سے درس نظامی سے مشکل ترین کتابیں نکال تو سکتے ہیں لیکن ضرورت کی بنیادی چیزیں داخل نہیں کرسکتے آخرکیوں؟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے