65a854e0fbfe1600199c5c82

کیسی کیسی مائیں گزر گئیں:



 کیسی کیسی مائیں گزر گئیں:


(ناصرالدین مظاہری) 


فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفرحسین اور شیخ الادب حضرت مولانا اطہر حسین دونوں بھائیوں کے تقوی وطہارت، زہد وقناعت ، عبادت وریاضت اور ذکر وفکر کے واقعات آپ نے بہت پڑھ رکھے ہیں, میں نے بھی اپنی تحریروں میں جگہ جگہ لکھ رکھے ہیں لیکن ان کی والدہ ماجدہ یعنی حضرت مولانا مفتی سعید احمداجراڑوی کی اہلیہ محترمہ عزیزن فاطمہ مرحومہ کے بارے میں بہت کم لکھا ہے آج ان کا ایک قابل رشک عمل اور لائق رشک معمول سنا تو دل لکھنے کے لئے بے تاب و بے چین ہوگیا۔


مرحومہ ناظرہ خواں تھیں، وقت کے مفتی اعظم کی بیوی تھیں، اپنے گھر پر ہی فرصت کے اوقات میں بچیوں کو مفت میں قرآن پاک پڑھاتی تھیں ان کی پڑھائی ہوئی بچیاں آج ماشاء اللہ دادیاں اور نانیاں بن چکی ہیں۔ بہت سی حیات ہیں اور بہت سی جنت رسید ہوچکی ہیں۔محلہ کی عورتیں اب بھی ان کانام نہایت عقیدت ومحبت سے لیتی ہیں۔


اخیر عمرمیں صاحب فراش ہوگئیں،بیٹیاں بیاہ کر اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ ایسے وقت میں ساس کی خدمت بہوؤں کے سر آن پڑتی ہے لیکن یہ خدمت حضرت استاذ مکرم مولانا اطہر حسین نے نبھائی اور ایسی نبھائی کہ ایک ایک رات میں بسااوقات اٹھارہ اٹھارہ مرتبہ حاجت اور ضرورت کے اٹھتی تھیں اور ہر آہٹ پر اپنے بیٹے حضرت مولانا اطہر حسین کو اپنے پاس کھڑا پاتی تھیں۔سوچیں عین نوجوانی میں نیند کیسی ہوتی ہے اور کیسی پیاری اولاد پائی تھی جس کے اندر کسل کے، کاہلی کے، تکان اور تھکن کے کوئی اثرات نہیں پائے جاتے تھے۔بیٹے کی مستعدی اور ہر آواز پر لبیک کی ادا اور سعادت سے خوش ہوکر بار بار بلکہ ہر بار دعائیں دیتیں ،بلائیں لیتیں اور فرمایا کرتیں کہ

"اطہر تو میرا بیٹا نہیں میری ماں ہے"۔


جب عمر کی کشتی ساحل سے لگنے والی تھی، بسترپر دراز رہا کرتی تھیں۔قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کا معمول چونکہ زندگی بھرکا تھا اس لئے پڑے پڑے بھی انگشت شہادت یوں ہلتی اور چلتی رہتی تھی گویا انگلی قرآن کریم پر رینگ رہی ہو۔عین سکرات اور نزاع کے عالم میں بھی آپ کی زبان پر آیت قرآنی کے یہ کلمات جاری تھے:


وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتَعْمَلْ صَٰلِحًا نُّؤْتِهَآ أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا.


قربان میری جان ایسی ماؤں پر جن کے لبوں پر دم آخر آیات بھی ایسی جاری ہوئیں جن میں عورتوں کو ہی مخاطب بنایا گیا ہے۔لیجیے ترجمہ بھی پڑھتے چلئے اور ایسی ماؤں کو اپنی دعاؤں میں یاد بھی رکھئے کہ آج دین اور دیانت کی جو خو اور بو اور ایمان واسلام کی جو چمک اور رمق باقی ہے ان میں ان ہی جیسی ماؤں کا عظیم کردار ہے:


"اور جو تم میں فرمان بردار رہے اللہ اور رسول کی اور اچھا کام کرے ہم اسے اوروں سے دونا(دگنا)ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے"۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے