65a854e0fbfe1600199c5c82

اذان کی عظمت اور بے سرے مؤذن

 


سنوسنو!!
اذان کی عظمت اور بے سرے مؤذن 


(ناصرالدین مظاہری)

9/صفر المظفر 1445ھ


" ہونا تو یہ چاہیے کہ صبح کے وقت جب اذان دی جائے تو وہ خوبصورت ہو، سریلی ہو اور روح کو تازہ کر دےلیکن ترکی کے شہر استنبول میں موذن اور امام فجر کی آذان دیتے ہیں تو لوگ نماز کی طرف لپکنے کے بجائے کانوں کو بند کر لیتے ہیں۔یہ مسئلہ اتنا گمبھیر ہو گیا ہے کہ عوام کی طرف سے شکایات کے سیلاب کے بعد بے سُرے مؤذنوں کے لیے خصوصی کلاسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے"۔


یہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ بی بی سی کی 12 مئی 2010 کی نشریات کے حوالے سے کہہ رہاہوں۔اذان کی بھلے ہی بے انتہا فضیلت ہے لیکن ہم نے اپنے کردار وعمل سے اذان اور مؤذن کو مطلوب درجہ دینے میں مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کی ہے۔


اذان وہ صدائے مسلسل اور جرس صلوہ و فلاح ہے جس میں لہجہ کی تاثیر،کلمات کی ترتیب اور خود مؤذن کے لحن سے صرف مسلمان ہی نہیں کفار بھی محظوظ ہوتے تھے، بعضے موذنوں کی اذانیں سننے کے لئے لوگ وقت کا انتظار کیا کرتے تھے،ان کی اذانوں سے قلوب کھنچتے تھے،دل مچلتے تھے،آنکھیں نم ہوجاتی تھیں،سکوت و سکون کا سماں قائم ہوجاتا تھا،بہت سے واقعات تو ایسے بھی ہیں کہ اذان سن کر لوگ کلمہ پڑھ لیتے تھے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ


 " جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک کی وہ تمام چیزیں جو اس کی اذان سنتی ہیں سب اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں"۔


 المؤذن یغفر له مد صوته، ویستغفر له کل رطب ویابس". (المعجم الکبیر للطبراني)


"مؤذن جس طرح اذ۱ن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے اور اس کی وحدانیت کا ترانہ گاتا ہے، اسی طرح کا اس کو اجر بھی رب العزت مرحمت فرمائیں گے کہ قیامت کے دن یہ تمام پر بلند ہوگا، اس کو امتیازی شان حاصل ہوگی اور وہ ساری کائنات جس نے اس کی آواز سن لی ہے، اس کے حق میں گواہی دے گی"۔(بنوری ٹاؤن کراچی)


پہلے زمانے میں مؤذن کی مکمل عزت ہوتی تھی،مؤذنین خادم نہیں مخدوم ہوتے تھے ، اب معاملہ ہی الٹا ہوچکاہے ،سیدنا بلال حبشی کے جانشینوں کو خادم بنادیا گیا ہے ،انھیں مسجد کا فراش اور چپراسی کادرجہ دے دیاگیا ہے،ہر مقتدی مؤذنوں کو اپنا نوکر چاکر سمجھتا ہے ،جس کو دیکھو مؤذنوں پر اپنی چلانے کی کوشش کررہاہے،مؤذنین بھی مجرموں کے مانند سر اطاعت خم کرکے اپنی بے بسی وبے کسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔


مؤذنین یہ سب اس لئے برداشت کررہے ہیں کہ وہ اپنی بے سری،بے ہنگم اور بے تربیت لب ولہجہ سے مجبور ہیں،انھیں اذان کا صحیح طریقہ ہی معلوم نہیں ہے،وہ اذان کے ساتھ ثواب سمجھ کر" ظلم" کررہے ہیں ،ان کی اذانیں بے کشش ہیں،ان کے لہجے خوفناک اور ان کی آواز ڈراؤنی ہے, اسی لئے ان کی اذانیں اب کانوں میں رس نہیں گھولتی ہیں،ان کی آواز کی طرف کان نہیں لگتے ہیں،لوگ ان بے ہنگم آوازوں سے پریشان ہوجاتے ہیں ۔ایسے ہی واقعات ترکی کے استنبول میں واقع تین ہزار سے زائد مساجد میں جب بکثرت پیش آئے تو کچھ اللہ والوں کو توفیق ہوئی انھوں نے تمام مساجد کے مؤذنین اور ائمہ کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور بہت جلد بڑی حد تک کامیابی حاصل کرلی لیکن ان ہی کا کہنا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی تھے جو پورے سال اذان سیکھتے رہے لیکن کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ ان کی عادتیں پختہ ہوچکی ہیں۔ایسے لوگوں کو مسجد میں اذان کے علاؤہ دوسری ذمہ داریاں دی جاسکتی ہیں۔اذان وہ نغمہ ہے جس کی نغمگی سے قلوب پر براہ راست اثر ہوتاہے اس لئے اذان جیسے مہتم بالشان امر پر ایسے بے تربیت لوگوں کو مامور کرنا اذان کی توہین ہے۔


مدارس والے اس سلسلہ میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں وہ یک ماہی دو ماہی کورس متعین کرکے علاقہ کے تمام مؤذنین کی تربیت اور ٹریننگ کا خوشگوار فریضہ انجام دے سکتے ہیں، اپنے قراء کو بھی یہ خدمات ایک گھنٹہ یومیہ کے لئے دے دیں اور تمام مؤذنین کے لئے ضروری قرار دے دیا جائے کہ تربیت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرکے ہی اذان دیں تو آپ دیکھیں گے اب بھی اذان سے ماحول اور معاشرے میں انقلاب آسکتاہے۔


میں نے خود بعض غیرمسلموں کو بعض اچھے خوش الحان قاریوں کی اذانیں سنتے بصد ذوق وشوق دیکھا ہے۔ کان وہی ہیں،قلوب وہی ہیں،دماغ وہی ہیں صرف مؤذنین پر ذرا سی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے