65a854e0fbfe1600199c5c82

گھر کا سکون


 سنوسنو!
گھر کا سکون 


ناصرالدین مظاہری


 بچوں کی پرورش اور اُن کے مستقبل کوبنانے سنوارنے میں ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں، کتنی کٹھن منزلوں،خوفناک گھاٹیوں اور پرخطر راستوں سے گزرتے ہیں، ماں باپ اپنے لئے نہیں اپنے بچوں کے لئے اپنا خون پسینہ پانی کی طرح بہادیتے ہیں، اِس بات کا احساس ہمیں تب ہوتاہے جب ہم خود باپ بن جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سوچ اور غور و فکر کی دولت بھی بڑھتی عمرکے ساتھ خاص فرمادی ہے،چنانچہ آپ کتنی ہی بڑی ڈگری حاصل کرلیں آپ کو نوکری نہیں ملتی جب تک آپ تجربات کے دور سے نہ گزر جائیں ،بہوؤں کی ناسمجھی ساس کو تب پریشان کرتی ہے جب ساس ہی ’’ناسمجھ‘‘ ہو ورنہ ہر ساس کو سمجھنا چاہئے کہ بہوبھی اس کی بیٹی کی طرح ہے،اس کی بیٹیوں کی ہم عمر اور اس کی ہمجولیوں میں سے ہے،وہ بھی ناتجربہ کارہے ،ناسمجھ ہے، اسے زندگی میں پہلی بار سسرال سے سابقہ پڑاہے ،وہ اپنے باپ میں پیار کا جو آبشار بہتا دیکھتی تھی وہی پیار وہ اپنے سسر میں دیکھنا چاہتی ہے،اس کو اپنی ماں کے آنچل میں جوسکون ملتا تھا وہی سکون وہ اپنی ساس کے آنچل میں تلاش کرتی ہے،وہ اپنے بھائیوں کو چھوڑ کرآئی ہے یہاں بھی اپنے دیوروں کے درمیان رہ کربہن بھائیوں جیسا مقدس رشتہ استوار ہوسکتا تھا،وہ ساس ہرگز ساس نہیں ہوسکتی جو اپنی بیٹی اوربہوکے درمیان امتیاز کی لکیر اور حدودمتعین کرے،وہ سسرکامیاب انسان ہو ہی نہیں سکتا جو اپنی بہو کو اپنی بیٹی کا درجہ نہ دے ، دیور ہمیشہ پریشان رہیں گے اور پریشان کریں گے اگراپنی بھابھی کو اپنی بہن کے قائم مقام نہیں سمجھا،معاشرتی اور خانگی اختلافات کی وجوہات روپے پیسے ،دھن دولت اورروٹی بوٹی سے نہیں ہوتی بلکہ رویے اور نظریئے سے ہوتی ہے، ہمارے رویوں پرہی گھروں کاسکون اور اطمینان منحصرہے، ہم نے پہلے سے ٹھان رکھا ہے کہ ہماری بہو گھرمیں داخل ہوتے ہی ’’نوکرانی‘‘ کی ضرورت پوری کردے تو جناب آپ کواس وقت بالکل پریشانی نہیں ہونی چاہئے جب آپ کی اپنی بیٹی اپنی رام کہانی سنائے کہ کس طرح اس کے سسرال والے اس سے جانوروں کی طرح کام لیتے ہیں ،آپ کیسے انسان ہیں کہ اپنی بیٹی کی ساس، سسر، جیٹھ، جٹھانی، دیور،نندوغیرہ کوخراب سمجھ رہے ہیں اورحال یہ ہے کہ خود آپ کی بہوبھی اپنے سسر، ساس،نند،جیٹھ ،جٹھانیوں اور دیور دیورانیوں کی فوج سے نبرد آزماہے۔


 خوب یاد رکھیں اپنے آپ کو اچھا کہنے اور اچھاسمجھنے سے آپ ہرگز اچھے نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ دنیا والے بھی آپ کواچھا نہ کہنے لگیں۔


 ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سسربھی تھے، دامادبھی، حضرت خدیجہؓ ماں بھی تھیں ساس بھی، حضرت عائشہ صدیقہ ؓاورحضرت فاطمہ زہرارضی اللہ عنہادونوں تقریباً ہم عمرتھیں لیکن خانگی حالات پرنظرکیجئے توحضرت عائشہؓ حضرت فاطمہ زہراؓکی شان میں قصیدے پڑھتی نظرآتی ہیں،حضرت فاطمہؓ حضرت عائشہ ؓکی فضیلت بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں ، حضرت فاطمہؓ نے اگرحضرت علی کی کسی بات کاشکوہ اپنے والد گرامی سے کیا توحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داماد سے خفا نہیں ہوئے بلکہ داماد سے بھی پرشش حال واحوال کی، دونوں کی گفتگوسن کر ہمیشہ ایسی راہ اختیارفرمائی جس کارخ فساد اور بگاڑکی طرف نہیں، الجھاؤ کی طرف نہیں بلکہ رخ مبارک معاملے کو سلجھانے کی طرف رہا،اسی لئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خیرکم خیرکم لاہلہ واناخیرکم لاہلی۔(ابن ماجہ)


 بدگمانیاں ،غلط فہمیاں، بےعزتی یہ چیزیں کسی بھی معاشرہ کو خراب اور برباد کرنے کے لئے بنیادی اور کلیدی حیثیت رکھتی ہیں،ہوتایہ ہے کہ بہوکے آتے ہی ساس ڈائن کاروپ اختیار کرلیتی ہے، ذرا ذرا سی بات پر کمیاں اور خامیاں نکالناشروع کردیتی ہے، اگر بہوکے بنائے ہوئے کھانے پسندنہیں آتے تویہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے وہ جس گھراورگھرانے سے نکل کرآئی ہے وہاں کا مزاج اور تھااور اب جس گھراور خاندان میں بیاہ کرآئی ہے یہاں کاماحول اور مزاج کچھ اور ہے ،بہت ممکن ہے اس کے یہاں تیزمرچ کی ڈشیں محبوب ہوں اوربہت ممکن ہے کہ آپ کے یہاں تیز مرچوں سے الرجی ہوجاتی ہو،ہوسکتاہے کہ آپ بہت کم چینی والی چائے پسند کرتے ہوں اوروہ جس گھرمیں پلی اور بڑھی ہے اس کے یہاں زیادہ میٹھی چائے پی جاتی ہو،تویہ کوئی نقص نہیں ہے آپ پہلی فرصت میں بہو کو بتائیں سمجھائیں، اگرشروع میں ہی اپنی پسند ظاہر کردیں توقطعاً منہ بنانے اور بسورنے کی نوبت نہیں آئے گی۔


 میں خود اپنا واقعہ بتاتاہوں میری عمریہی کوئی بارہ تیرہ سال کی تھی میری ماں بھی ’’ساس‘‘ تھیں،میری بڑی بھابھی نے کھچڑی بنائی،نمک تیز ہوگیا،بھابھی کی حالت غیرہونے لگی کہ اب ساسو ماں کی ڈانٹ پڑنے والی ہے ،میں موجودتھا، ان کی حالت دیکھ کرمیں نے کہاکہ میں والدہ سے کہہ دوں گاکہ نمک زیادہ کرنے کے لئے میں نے بولا تھا، مجھے کم نمک کی چیزیں پسندنہیں ہیں ،چنانچہ والدہ ماجدہ نے جیسے ہی ناک بھوں چڑھائی تو میں نے پہلے سے طے شدہ ارادے اور وعدے پر عمل کیا،میری والدہ خاموش ہوگئیں، حالانکہ میری والدہ میری ایک ایک پسند ناپسندسے واقف تھیں لیکن اپنے بیٹے کی بات آگئی تو سکوت ،دوسری کی بیٹی کی بات آجائے توآگ بگولہ۔


 اگرآپ اپنے گھرکوپرسکون بنانا چاہتے ہیں ، اپنی بہوکی خدمت سے دیرتک لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، اپنے بیٹے کے ساتھ ایک چھت اورایک چولھے سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں توکبھی بہرے بن جائیں،کبھی گونگے بن جائیں اورکبھی اندھے بننے کی ناٹک کریں ۔ میاں بیوی کے درمیان چھوٹے موٹے جھگڑوں کوحل کرنے کے لئے’’ ججی ‘‘کے فرائض انجام نہ دیں کیونکہ ہرکیس عدالت میں لے جانے کے لائق نہیں ہوتا، ہربات بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ہر پھٹے میں ٹانگ اَڑانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے