65a854e0fbfe1600199c5c82

موافق و نا مساعد حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریاں

 


تیری رہبری کا سوال ہے!
  (موافق و نا مساعد حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریاں)

  🖋️ ترتیب: محمد عمر قاسمی کاماریڈی


  علماء کرام وارثینِ انبیاء اور نائبینِ رسول ہیں ، حضرات انبیاءؑ جس مقصد سے دنیا میں مبعوث ہوئے تھے، وہ مقصد ہمیشہ علماء کے پیش نظر رہنا چاہیے، اگر وہ مقصد ائمۂ مساجد اور خدامِ دین کے سامنے رہے گا تو پھر حالات کتنے ہی پرخطر اور نا موافق کیوں نہ ہو، ان تمام حالات میں دین کا صحیح کام ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی انبیاء کرام علیہم السلام نے دین کی اور ایک اللہ کی دعوت دی ہے پھولوں کی سیج نہیں ؛ کانٹوں کے انبار تھے، قوم کی طرف سے ابتدا میں کسی بھی نبی کا استقبال نہیں ہوا ؛ ہمیشہ انہیں ایذاء پہونچائی گئی اور بالخصوص ہمارے آقا ﷺ کو تو شاعر کہا گیا، کاہن بتلایا، مجنون قرار دیا، کانٹے بچھائے گئے، اوپر سے پتھر گرانے کی سازشیں رچی گئی، زہر دیا گیا، یہ سب کچھ ہوا ؛ لیکن کبھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ آیا؛ لہذا جب علماء کرام کو وراثت نبوی کا حق دار بتایا گیا تو ان کے لئے یہ بات بالکل روا اور مناسب نہیں کہ نا مساعد حالات سے پریشان ہوکر شکایتیں کرنے لگے؛ بلکہ حالات کی سنگینی میں بھی دین پر جم کر خدمتِ دین کا فریضہ انجام دینا چاہیے؛ یہی مزاج نبوت ہے۔ 

 (۲) صبر و تحمل کا لباس زیب تن کرلیں: جب خدمتِ دین کو اپنا مشن بناکر میدانِ عمل میں اتر گئے تو پھر صبر و برداشت سے آراستہ ہوجانا چاہیے، لوگوں کی اول فول بگواس اور دشنام طرازیوں کی پرواہ کیے بغیر اور مصلیوں کی تلخ نوائی اور سخت کلامی پر بے قابو ہوجانے کے بجائے صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے اور اپنے بزرگانِ دین اور سلفِ صالحین کی قربانیوں سے بھری زندگیوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے، اور بالخصوص امام احمد بن حنبلؒ کی بےمثال و لاجواب ثابت قدمی اور مستقل مزاجی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے، کہ ان پر مسئلۂ خلقِ قرآن کا انکار کرنے کی پاداش میں وہ ظلم و تعدی اور جور و ستم ڈھائے گئے اور کوڑے مارے گئے کہ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اگر ایک کوڑہ ہاتھی پر مارا جاتا تو وہ بھی بلبلاتا، ایسے سو کوڑے مارے جاتے ہیں تب بھی آپ کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آئی، ان سب کے باوجود آپؒ اپنے مسلک و مشرب پر بالکل جمے رہے، لہذا ہمیں بھی حالات کی سنگینی کا رونا رونے کے بجائے اولو العزم شخصیات کو پڑھنا چاہیے ؛ کیونکہ انہوں نے اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لئے صبر و استقامت اور عزم و استقلال کا وہ مظاہرہ پیش کیا جو نو فارغین کے لئے لائقِ تقلید امر اور بہترین نمونہ ہے، مفکر اسلام حضرت علی میاں ندوی ؒ رقم طراز ہیں کہ عالم دین کو قطب نما ہونا چاہیے ؛ کیوں کہ اس کی دو خصوصیات بہت ممتاز ہے: (۱) مثلاً آپ سفر میں ہو حضر میں ہو ، گاڑی میں ہو کہیں بھی ہو وہ اپنا کام ( راستہ بتانا )نہیں چھوڑتا ؛ بلکہ ہمیشہ صحیح سمت بتاتا ہے ایسے ہی ہمیں بھی احوالِ زمانہ کے فرق کے بغیر صحیح راہ بتانا ہے، دین کا صحیح پیغام ان تک پہونچنا ہے۔ (۲) دوسری خصوصیت: قطب نما اپنی رہنمائی میں امیر و غریب کا فرق نہیں کرتا کہ تمہارا قبلہ ادھر ہے اور غریب کا قبلہ ادھر، اس لئے علماء کرام کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے امیر و غریب کے تعلق میں بھید بھاؤ نہ کریں؛ یکساں سلوک کریں؛ ورنہ ہوتا تو یہ ہے کہ ہم امتیازِ امیر و غریب کے نتیجہ توہینِ علم کا ارتکاب کر جاتے ہیں؛ نیز علم دین کی قدر و قیمت سے نا آشنا مالداروں کا دروازہ کھٹکھٹانے سے احتراز کرنا چاہیے اور بالخصوص آج کے دور میں اپنے اندر صفتِ استغناء پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے، کبھی مخلوق پر نظر نہ جائے، مخلوق سے امیدیں قائم کرنے کے بجائے خالق سے تعلق استوار کرنا چاہیے، اس سلسلہ میں سلفِ صالحین اور علماء کاملین کی بےشمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں؛ حضرت سعید حلبیؒ ؒجامع اموی میں درس دے رہے تھے، ایک مرتبہ حضرت سعید حلبی ؒ کے پیر میں کچھ تکلیف تھی پیر پھیلائے ہوئے درس دے رہے تھے، دورانِ درس شام کا گورنر (جو بڑا جلاد اور سفاک تھا) آیا، تو آپ نے اپنا پیر سمیٹا نہیں ، تو تمام شاگرد گھبرا گئے اور ڈرنے لگے، کہ کہیں ظالم و سفاک ہمارے شیخ کی گردن نہ اڑا دیں، اور اس کے خون کے چھینٹے ہم پر پڑیں؛ لیکن استغناء اس درجہ تھی کہ پیر علی حالہٖ باقی رکھا، پھر وہ چلا گیا اور حضرت ؒ کی خدمت میں اشرفی وغیرہ کی ایک تھیلی بطورِ ہدیہ بھیجی، تو حضرت نے آنے والے قاصد سے کہا: واپس لے جاؤ اور یہ کہہ کر دے دو : ”جو لوگوں کے سامنے پیر پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا “ اللہ اکبر یہ تھی ہمارے اکابر کی استغناء اور بےنیازی ۔ 


۳۔ اللہ ربّ العزت و الجلال کا ارشاد ہے : اَلرَّحْمٰنُ ﴿۱﴾ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ 

یہاں پر باری تعالیٰ نے صفتِ رحمان کا تذکرہ کیا ہے؛ اگر وہ چاہتے تو لفظ ”اللہ“ بھی ذکر کردیتے تھے، یا اپنی اور کوئی صفت مثلاً الغفور بھی کہہ سکتے تھے ؛ لیکن آپ اہل علم جانتے ہیں کہ یہاں صفتِ رحمان کے ذکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا فضل مطیع و فرمانبردار اور سرکش و نافرمان ہر ایک پر عام ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہاں رب رحمنٰ نے تعلیمِ قرآن کی نسبت کے ساتھ صفتِ رحمنٰ کو ذکر کیا ہے بہ قول صاحب روح المعانی وغیرہ: کہ قرآن پڑھانے والے کو رحمنٰ والی صفت اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ماننے کو پڑھائے اور نہ ماننے والوں کو اپنے مدرسہ سے نکال دیں؛ بلکہ معلم کی طبیعت میں شفقت و مہربانی امت کے لئے بھی آنا ہے اور اپنے طلباء کے لئے بھی، یہ مزاج اگر ہم اپنا بنالیں تو ان شاء اللہ درس و تدریس میں بڑی کامیابی ہوگی۔ 


 ۴ ۔ عربی کا ایک مقولہ ہے : العلماء مصباح ھذہ الامۃ (علماء کرام اس امت کے چراغ ہیں) یعنی جس طرح موم بتی سب کو روشنی دیتی ہے؛ لیکن خود پگھلتی ہے، چراغ میں تیل جلتا ہے تب جاکر روشنی ہوتی ہے ایسے ہی علماء کو خود کو مٹانا چاہیے، اپنے آپ کو مٹاکر قوم کو روشنی پہونچانا ہے، اس طرح ہم کریں گے تو ان شاء اللہ روشنی کے پھیلانے والوں میں ہم بھی شامل ہوجائیں گے۔ 


۵۔ اپنے تمام اعمال و خدمات پر اخلاص کا رنگ چڑھانا: کام میں اخلاص نہ ہو تو کتنی تحریکیں بن جائے کام نہیں چلتا، پوری دنیا میں تبلیغی جماعت کا جو کام چل رہا ہے وہ حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کے اخلاص کا اثر ہے اسی طرح اگر ہم کوئی تحریک لیکر چلیں (مثلاً تحریکِ علماء ہو ، جمعیۃ العلماء ہو ، یا لجنۃ العلماء ہو) اگر ہم اس میں اپنی شان بگارنے کے لئے ، اپنے عہدوں کے لئے کام کریں گے تو یاد رکھنا کہ وہ کام نہیں ہوگا ہاں! اگر کام ملت کے مفاد کے پیش نظر ہو اور اخلاص ہو کہ (اللہ دیکھ رہے ہیں مخلوق نہیں) تو ان شاء اللہ وہ کام ترقی کرے گا۔

 اللہ تعالیٰ ہمیں توفیقِ عمل ارزانی فرمائے اور پاک دامنی کے ساتھ اخلاص و استقامت کی دولت نصیب فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے