65a854e0fbfe1600199c5c82

اہل اورمحل کی اہمیت

 

سنو!سنو!!
اہل اورمحل کی اہمیت


ناصرالدین مظاہری


کٹی پتنگ زیادہ ہلتی ڈولتی ہے ، جب کہ اس کا ہلنا ڈولنا اس کو پستی کی طرف لے جاتا ہے۔جن لوگوں کا رشتہ بڑوں سے کٹ جاتاہے ان کا رستہ بدل جاتا ہے۔کٹی پتنگ کو ہر کوئی لوٹنے اور جھپٹنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ اس کا رہا سہا مانجھا کسی کے لیے بھی حادثہ کا سبب بن جاتا ہے۔


ہرے بھرے لہلہاتے درختوں کو دیکھیے، درختوں کے سبز اور خوش رنگ پتوں اور پھولوں پر نظر کیجیے ،کتنے حسین نظر آتے ہیں، کس قدر من کو بھاتے ہیں،تازہ پتوں پر پڑی شبنم کو دیکھ کر لگتا ہے ابھی ابھی غازہ اور میک اپ ہوا ہے یہ پھول اور پتے تب تک حسین و جمیل ہیں جب تک پیڑ سے مربوط ہیں ،جیسے ہی پیڑ سے تعلق ختم ہوا تو مرجھانا اور سوکھنا شروع ہوجاتے ہیں،ان کی دلکشی، رعنائی ،زیبایئ، خوشنمائی سب کچھ بدل جاتی ہے،اور پھر یہ کوڑے دانوں کی نذر ہوجاتے ہیں، ان کی یہ بے قیمتی اور بے وقعتی اسی تعلق کے انقطاع کے باعث ہے۔


ہزاروں میل کا سفر کرنے کے دوران اسے بار بار یہ احساس ہوتا رہا کہ پورے ٹرک کا دار و مدار اسی پر ہے، کیچڑ، مٹی،پانی، گرمی،بارش، کیل، کنکر،کانٹے ہر مشکل میں اسے ہی جوجھنا پڑتا ہے،سامان کم ہو یا زیادہ اسی کو لادنا پڑتا ہے، ان تکلیف دہ، دشوار گزار مراحل کے باوجود اسے ملتا کیا ہے صرف ہوا،یہ سوچ کر اس نے ایک دن بڑا فیصلہ لیا،اس نے ارادہ کیا کہ میں ایک آزاد زندگی گزاروں گا ،کھلی فضا میں سانس لوں گا، ڈرائیور کا محتاج نہیں رہوں گا،مشینوں کی گڑگڑاہٹ سے دور اپنا ایک مقام بناؤں گا چنانچہ ایک دن موقع غنیمت جان کر اپنے بقیہ ساتھیوں سے جدا ہوکر نکل بھاگا، نکلتے ہی اس کی رفتار اتنی تیزہوگئی کہ اس کے ساتھی بہت پیچھے رہ گیے، قرب وجوار میں چلنے والی دیگر گاڑیوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی، اس کا گزر جہاں جہاں سے ہوا تمام گاڑیوں نے اسے جانے اور آگے بڑھنے کا راستہ دے دیا ، وہ خوش تھا کہ گاڑی کے بوجھ سے جان بچی، اسے خوش فہمی تھی کہ معاشرہ کس قدر عزت دے رہاہے لیکن رفتہ رفتہ رفتار کم پڑتی گئی،دم خم جاتے رہے، اپنے وجود پر کھڑا رہنا مشکل ہوگیا،یہاں تک کہ ایک جگہ چکرا کر گر گیا۔یہ کہانی ہے ہر اس پہیے کی جو اپنے بقیہ ساتھیوں سے الگ ہوجاتاہے۔


یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ پہیا کا یہ گمان بالکل غلط تھا کہ گاڑی اس کے رحم و کرم پر ہے، اس کےاس تصور اور اس کی خوش فہمی نے اسے نہ صرف اپنوں سے دور و نفور کردیا بلکہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر بھی مجبور کردیا،اسے اندازہ نہیں تھا کہ کمال صرف پہیوں کا نہیں ہے مشین کا بھی ہے،مشین کے ایک ایک پرزے کا بھی ہے، کمال تیل اور موبل آیل کا بھی ہے جس کے بغیر نئی نویلی گاڑی بھی بے کار ہے، کمال سڑک کابھی ہے جس میں ننھے ننھے پتھروں اور تارکول کی موجودگی نے چلنے کی دشواریوں کو دور کردیا ہے،کمال تو اس ڈرائیور کابھی ہے جو اگرچہ اس گاڑی کا پرزہ نہیں ہے لیکن تمام پرزوں کی حفاظت اور محفوظ گذرگاہوں سے منزل مقصود تک رسائی اسی کی بدولت ممکن ہوسکی ہے۔


عمارت ہی کو لے لیجیے ایک شاندار فلک نما عمارت کے حسن، مضبوطی، کشش،بلندی وغیرہ میں کسی ایک کا حصہ نہیں بلکہ سریا،سیمنٹ، کنکر، پتھر، اینٹ،لکڑی،بجری ہر چیز کا اہم حصہ ہے،صرف سریا دعویٰ نہیں کرسکتا،صرف سیمنٹ کو خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے سچ یہ ہے کہ اس بنیان مرصوص کو ایک کو دوسرے نے دوسرے کو پہلے نے مضبوط کیا ہواہے اور یہ سب یشد بعضہ بعضا کا مصداق ہیں۔


یہ کہانی ہمیں سبق دیتی ہے کہ اگرہم کسی ادارے ، تنظیم ، کمپنی وغیرہ میں کام کررہے ہیں تو ہمیں ہرگزیہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم ہی اس کمپنی کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہیں ،آپ کسی بھی کمپنی کے کسی بھی عہدے پرفائزہیں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کاکرم اوراس کااحسان ہے کہ اس نے آپ کواس کام کے لئے منتخب فرمایاہے اورپھرآپ کے مالک اورذمہ دارکابھی احسان ہے کہ اس نے آپ کواس خدمت کاموقع دیاہے ۔شیخ سعدی شیرازی نے کتنے خوبصورت لفظوں میں ہمارے لئے فرمایاہے :


منت منہ کہ خدمت سلطان ہمی کنی 

منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت


احسان مت جتلا کہ توسلطان کی خدمت کررہاہے بلکہ اس کا احسان جان کہ اس نے اپنی خدمت کے لئے تجھے رکھا ہواہے۔


بہت سے لوگ اسی خام خیالی میں اپنی زندگیاں گزارکر چلتے بنے کہ ادارہ،تنظیم یاکمپنی اسی کے دم سے قائم ہے،اسی کی محنت اور دماغی کاوشوں سے اس کی ترقی ہورہی ہے ، گھر کے بڑے اگریہ خیال کریں کہ اس کے چھوٹے بھائی اوربہنیں اس کی کمائی سے پل رہے ہیں تویہ بھی اس کی غلط فہمی ہے ، ہمیشہ یہ سوچتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ خداجانے کس کے مقدر سے رزق دے رہا ہے، ننھے بچے،معصوم بہنیں، کمزور والدین کسی کے بھی مقدر سے اللہ تعالیٰ پورے پورے گھر اورگھرانوں کونوازتا ہے اور کمانے والے سوچتے رہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے گھرکی رونقیں بحال ہیں۔اگریہ سچ ہوتاتواس شخص کے مرنے کے بعدادارے بند ہوجاتے، فیکٹریوں میں تالے اورکمپنیوں میں جالے پڑجاتے، یونیورسٹیوں میں خاک اڑنے لگتی، دکانیں نابود اور کاروبار برباد ہوکررہ جاتا۔لیکن ایسابالکل نہیں ہے،ملک کانظام جوں کاتوں چلتا رہتا ہے، فیکٹریاں اورکمپنیاں ترقی کرتی رہتی ہیں، ادارے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔پتہ یہ چلاکہ رزق کے ذرائع اورمعاش کی ترتیب وتنظیم اور کامیابی و کامرانی ہمارے قبضہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے ، وہ جس کوجتنا چاہتا ہے ترقی دیتاہے ،رزق سے نوازتاہے اورجس سے چاہتاہے رزق چھین لیتاہے ۔


 نماز اور جماعت کے بارے میں احادیث شریفہ کامطالعہ کرتے کرتے ابوداؤدشریف کے حوالے سے چانک حدیث شریف کے یہ الفاظ میرے سامنے آئے توحیرت زدہ رہ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی کے لئے کتنی اہم مثال بیان فرمائی ہے، فرمایاکہ فانما یاکل الذئب من الغنم القاصیۃ۔ ’’بھیڑیااسی بکری کوکھاتاہے جوریوڑسے دورہو‘‘(نسائی)


چنانچہ آپ نے بھی دیکھاہوگا ورنہ موبائل میں تویقیناً یہ مناظر دیکھے ہی ہوں گے کہ شیر، بھیڑیا، چیتاکوئی بھی درندہ بھیڑ بکریوں اورگائے بھینس وغیرہ کے گلے اورجتھے پرحملہ آور نہیں ہوتابلکہ وہ ایساماحول بنادیتاہے کہ جانوروں کی اجتماعیت انتشار کا شکار ہوجائے، جانورجب ایک دوسرے کونظرانداز کرکے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں تب شکاری درندہ اُس جانور کو اپنا شکار بنالیتاہے جو اپنے ریوڑ اورجماعت سے دور ہوگیا۔


ہماری مثال بھی ایسی ہی ہے ہم اس وقت تک محفوظ ہیں جب تک اپنوں میں ہیں، جب تک اپنوں کے درمیان ہیں، جب تک اپنوں سے ہمارا مضبوط رشتہ ہے،جس دن ہمارا رشتہ اپنوں سے کٹ جاتاہے تو ہماری حیثیت ختم ہوجاتی ہے جیسے رسی اسی وقت تک رسی ہے جب تک اس کے ریشے باہم جڑے ہوئے اورملے ہوئے ہیں لیکن ایک ایک کرکے اس کے دھاگوں،اس کے ریشوں کوالگ کرتے رہیں تو رسی رسی نہیں رہتی،دھاگے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اورپھروہ کسی کام کی نہیں رہتی۔


سکوں کا ایک بھی لمحہ نہیں نصیب انورؔ

مرا خیال ہے محور سے ہٹ گئے ہو تم 

٭٭٭


مفتی ناصر الدین مظاہری کے مزید مضامین میں 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے