65a854e0fbfe1600199c5c82

26/جنوری :بھارتی قانون کے نفاذ کادن

 

سنو سنو!! 
26/جنوری :بھارتی قانون کے نفاذ کادن


(ناصرالدین مظاہری) 


یوں تو اس دنیا میں قبضہ ، آزادی اور غلامی کی تاریخ بہت قدیم ہے، دنیا میں ہر طاقت ور نے ہر کمزور کو ستایا ہے، ہر ظالم نے مظلوموں کی فہرست بڑھائی ہے، ہر امیر نے غریب کو ہڑپا ہے، ہر موڑ پر زیادتیاں کی گئی ہیں، کمزوروں نے ہمیشہ مظالم برداشت کئے ہیں، ایک زمانہ تھا کہ قیصر و کسری کا طوطی بولتا تھا، وہ بھی ایک وقت تھا کہ اندلس اور بغداد میں چپہ چپہ پر عشرت کدے تھے، چشم فلک نے اسکندر رومی کی سطوت بھی دیکھی، نپولین اور بونا پارٹ کا جبروت بھی دیکھا، امریکہ اور فرانس کے مقبوضہ علاقہ بھی دیکھے، برطانیہ کا چڑھتا سورج اور ڈوبتا ٹائٹینک بھی دیکھا، آہیں دیکھیں، کراہیں دیکھیں، اذیت خانوں سے گھٹی گھٹی سانسیں بھی سنتیں، عقوبت خانوں کی ہچکیاں، زندانوں کی سسکیاں کیا کچھ نہیں دیکھا اس بوڑھے آسمان نے، ہر دور میں مظلوموں نے ہر ظلم پر آس ویاس کے ساتھ آسمانوں کی طرف دیکھا کیونکہ احکم الحاکمین کی حاکمیت ہی مسلم ہے، لمن الملک الیوم اسی ذات کو زیب دیتا ہے، حکماء، امراء، وزراء، رؤساء ملوک و سلاطین سبھی کی گردنیں وہی دبوچ سکتا ہے، ہر ظلم پر فریاد کو وہی پہنچ سکتا ہے، صرف اسی کی ذات ہے جہاں انصاف ہے، ورنہ جس دنیا میں ہم جیتے ہیں یہاں جتنا بڑا ظالم ہوتاہے اتنا ہی خوشنما نعرہ لگاتا ہے، بے نواؤں کی ہمنوائی، فقراء کی امداد، غرباء پر رحم، مظلوموں کو انصاف، حقوق انسانی اور آزادی و خودمختاری یہ وہ خوبصورت جال اور جالے ہیں جن میں دنیا ہر دور میں پھنستی رہی ہے۔


ہندوستان پر کبھی انگریزوں کا قبضہ تھا، مٹھی بھر انگریزوں نے پورے ہندوستان پر طاقت کے بل پر نہیں اپنی ذہانت اور سیاست سے قبضہ کرلیا تھا، یہاں بھی برطانوی استعمار تھا، مشہور تھا کہ انگریز کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا، انگریز قابض تھاوہ ہر اس شخص کو اپنا دشمن سمجھتا تھا جو انگریز کی مخالفت میں بولتا تھا، چنانچہ انگریز نے ہر وہ ہاتھ قلم کیا جس نے انگریز کے خلاف لکھنے کی کوشش کی، ہر اس زبان کو کاٹا جس نے انگریز کی مخالفت میں بولنے کی کوشش کی، ہر اس سرکی سرکوبی کی جس نے اس کے خلاف اٹھنے اور ابھرنے کی سازش کی، اور جس نے اس سے وفاداری کی وہ نوازا گیا، جس نے اپنی قوم سے غداری کی اسے مالامال کردیا، مسلمان وہ قوم ہے جس کو غلامی کبھی پسند نہیں آئی اسی لئے اس قوم نے آزادی کی ہر تحریک میں حصہ لیا، کیونکہ آزادی آزادی ہے غلامی غلامی ہے۔ 


اپنی اسی عادت سے مجبور ہوکر مسلمان انگریز کے خلاف اٹھے اور مقتل پہنچ گئے، جس نے زبان کھولی قتل کردیا گیا لیکن یہ آواز اٹھتی رہی، ابھرتی رہی یہاں تک کہ پورے ملک میں پھیل گئی اور پھر بڑی قربانیوں کے بعد 15/اگست 1947میں ہندوستان کو آزادی مل ہی گئی۔ 


۲۶/جنوری اسی آزادی کے بعد ملک کے بال و پر اور نوک وپلک سدھارنے سنوارنے یعنی انگریزی آئین و قوانین سے چھٹکارا پانے کے لئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر وغیرہ نے کافی غور و فکر کے بعدیہاں کا دستور مرتب کیا جو بعد میں پارلیمنٹ سے پاس ہوکر نافذ ہوا۔ مگر مجھے کہنے دیجیے یہ اصول آج بھی ہاتھی کے دانت جیسا ہے جو کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور ہیں، یہاں قانون صرف کتابوں میں موجود ہے، قانون صرف عدالتوں کی فائلوں میں محفوظ ہے، قانون صرف منبر و اسٹیج سے ہونے والے بھا شن میں موجود ہے، قانون صرف نچلے طبقہ میں موجود ہے، ہر بڑا آدمی اس قانون سے بچ نکلنے یا بچاکر نکالنے میں کامیاب ہوتا رہا ہے۔ 


کتنی محنت کی تھی ہمارے اجداد نے اس ملک کو آزاد کرانے کی لیکن اب یار لوگوں نے ایسا حال کردیا ہے کہ کہنے والے کہنے پر مجبور ہیں کہ اس تعصب، دورنگی،عناد، بے انصافی اور ہندو مسلم لڑائی جھگڑے سے بہتر تو وہی زمانہ تھا جس کو غلامی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں، افکار پر جالے لگے گئے ہیں، انسانیت عنقا ہوگئی ہے، حیوانیت آزاد ہے، درندگی کی جڑوں میں آب تازہ اور خون تازہ ڈالا جارہاہے۔ تعلیم کافور ہوچکی، تربیت ختم اور شرافت اس آگ میں بھسم۔ یعنی اب ملک عزیز کو ارتھی پر لٹاکر کچھ جاہل، کچھ موالی، کچھ مفاد پرست، کچھ کرسی کے پجاری، کچھ ہنسا کے بیوپاری، کچھ سیاست کے کھلاڑی، کچھ شیطنت کے علمبردار اور کچھ ملک دشمن عناصر "رام نام ستیہ ہے" کہتے ملک کو ایک ایسی راہ پر لئے چلے جارہے ہیں جس کے آگے کھائی پیچھے خندق اور خود راہ میں خار مغیلاں ہے۔ 


 آہ! کان والے بہرے ہوچکے، آنکھ والے اندھے بنے ہوئے ہیں، دماغ والے مجنوں بنے پھرتے ہیں۔ کون کس کو سنائے اور کون کس کی سنے۔ 


 صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرشاد کے حکم سے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی نگرانی میں قوانین کی تشکیل کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی گئی 


کمیٹی نے جوقانونی مسودہ ترتیب دیا وہ مسودہ 26 نومبر 1949ء کو پارلیمینٹ میں پیش کیا گیا اور تمام اراکین پارلیمنٹ کی رضامندی سے وہ مسودہ قانونی شکل اختیار کر گیا۔ 

منظوری کے بعد یہ قانونی مسودہ 26 جنوری 1950ء کو نافذ کیا گیا۔ 


کہنے کو تو یہ قانون سب کے لیے ہے، لیکن سیاسی طالع آزماؤں نے ہی سب زیادہ قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں، وہ کبھی قانون کے تابع نہیں رہے بلکہ قانون کو اپنے تابع بلکہ اپنی جیب میں رکھا ہے، جب جب یہ طالع آزما قانون کی زد میں آئے تو قانون میں ہی ترمیم و تنسیخ کرتے رہے تاآنکہ آج کا قانون وہ قانون نہیں رہا جس کو ڈاکٹر بھیم راؤ کی نگرانی و سرپرستی میں مدون کیا گیا تھا، یہ قانون ایک خاص قوم خاص مفاد اور خاص منصوبہ کو سامنے رکھ کربدلا گیا ہے، اس قانون میں بابری مسجد کے قاتلوں سے گجرات فسادات کے قاتلوں تک کسی کو بھی سزا نہیں دی گئی، ماہرین قانون نے ہر دور میں قانون کے ساتھ مذاق کیا ہے، مذاق کررہے ہیں مذاق کرتے رہیں گے کیونکہ یہاں دینداری کا نام ونشان نہیں رہا، اپنے علاوہ کسی کو انسان ہی نہیں جانا گیا، وہ ملک جو سیکولر تھا یعنی جس کا سرکاری طور پر کوئی دھرم نہیں تھا آج آپ دیکھ سکتے ہیں سرکاری سرپرستی میں سارے مذھبی امور پورے ہورہے ہیں، وہ ملک جس کی جمہوریت کاڈنکا سارے عالم میں بجتا تھا آج سارا عالم یہاں کے مخدوش حالات، مسموم فضا اور مغموم ماحول سے رنجیدہ اور کبیدہ ہے۔ 


سوچئے کیا اسی دن کے لئے ہمارے بزرگوں نے انگریزوں سے لڑائیاں لڑی تھیں؟ کیا اسی دن کے لئے بھارت کا یہ گلدستہ سجایا گیا تھا کیا اسی دورنگی اورمنافقت پرمبنی حالات کے لئے انھوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ مؤرخ ہم سے سوال کرتا ہے کیا ہمارے بزرگوں نے وہ لڑائیاں لڑکر غلطی کی تھی؟ مؤرخ یہ بھی پوچھ رہا ہے کیا آزادی کی لڑائی انگریزوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے لڑی گئی تھی؟ کیونکہ آج پھر تم انگریزوں کے دم چھلے بنے ہوئے ہو۔


ترنگا خطرے میں ہے،ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈے کولہرایا جارہاہے، ترنگے کی آن بان شان سب عنقا ہوتی جارہی ہے، تہذیب خطرے میں ہے، ثقافت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، انسانیت آخری سانسیں لے رہی ہے اور شیطنت سر ابھار رہی ہیے۔


(26/جنوری 2024جمعہ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے