65a854e0fbfe1600199c5c82

مسلم قوم کا اپنے ائمہ کے ساتھ رویہ



 سنو سنو!
مسلم قوم کا اپنے ائمہ کے ساتھ رویہ


(ناصرالدین مظاہری)

حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کئے۔
(دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں.
(تیسرا) وہ آدمی جو رات دن  پانچوں وقت کے نماز کے لئے اذان کہتا ہے۔ (جامع ترمذی)

اس حدیث پاک میں پہلا نمبر غلام کا ہے، غلامی کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ دوسرا نمبر اماموں کا ہے، امام صاحبان کستوری کے ٹیلوں پر تو بعد مرگ پہنچیں گے دنیا والے تو انھیں اچھے گدے پر بھی بیٹھے دینا گوارا نہیں کرتے۔ چنانچہ دو واقعات پیش کرتا ہوں۔

مسوری دہرہ دون کی ایک مسجد کے امام صاحب ایک زمانے سے امامت کررہے تھے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا لیکن غیرمقامی ایک صاحب کو امام صاحب پسند آگئے اور انھوں نے اپنی طرف سے امام صاحب کی فیملی کے لئے اناج دینا شروع کردیا، یہ نیک عمل ان ہی امام صاحب کے مقتدیوں کو بہت ناگوار گزرا اور یہ ناگواری تب ختم ہوئی جب امام صاحب ہی کو امامت سے دست بردار کردیا۔

دوسرا واقعہ اور بھی دلچسپ ہے سہارنپور کے علاقہ میں ایک صاحب ایک مسجد میں امامت کررہے تھے امامت کے انھیں سات آٹھ ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے، گھریلو اخراجات زیادہ تھے، امامت صرف پانچ نمازوں تک ہی محدود ہوتی ہے اس لئے امام صاحب نے خارجی وقت میں پرانی موٹر سائیکل کی خریدوفروخت شروع کردی، تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ امام صاحب کو اچھامنافع ملنے لگا، بھلا یہ حلال روزی نا خلف مقتدیوں اور حاسد نمازیوں کو کہاں گوارہ ہوتی ایک دن الٹی میٹم دیدیا کہ یا تو امامت کر لو یا کاروبار کر لو دونوں میں سے ایک ہی کرسکتے ہو۔ امام صاحب نے مجبور ہوکر تجارت چھوڑ دی۔

یہ دو مثالیں ہیں میں ایسے سینکڑوں واقعات پیش کر سکتا ہوں جس میں امام کے بدخواہوں نے امام صاحب کو پائی پائی کا محتاج ہونے کے باوجود کوئی بھی جائز اور حلال کام نہیں کرنے دیا۔

دنیا بھر میں مذھب کے اعتبار سے تو اسلام ہی سب سے زندہ اور سچا مذھب ہے لیکن پیروان اسلام ہی سب سے زیادہ اپنے مقتداؤں سے بیر اور حسد رکھتے ہیں۔

آپ یہودیوں کو دیکھئیے پورا نظام ان کے مقتداؤں کے ہاتھ میں ہے۔

عیسائیوں کو دیکھئے ان کا سب سے بڑا مقتدا جہاں رہتا ہے وہ جگہ مستقل ملک کی حیثیت رکھتی ہے جس کانام ویٹکن سٹی ہے۔ اور سنئے ہندو حکومت صرف نیپال اور بھارت میں ہے لیکن ہندو اپنے گرو اور اپنے پنڈتوں کے ایک اشارے پر کوئی بھی کام کر گزرتے ہیں، بودھ دھرم اور جینی دھرم ہی کو دیکھئے کہ اپنے مقتداؤں کے لئے کسی بھی قربانی کے لئے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔

حکومت کو کھلے میں پیشاب پاخانہ حتی کہ نماز اور عبادت برداشت نہیں ہے لیکن سڑکوں پر بالکل ننگ دھڑنگ گھومنا اور گھمانا پتہ نہیں کیسے قابل قبول ہے۔

ہمارے ائمہ کی مالی حالت اگر ذراسی سدھر جائے تو وہ اور ان کے بچے بھی معیاری کھانا کھا سکتے ہیں، معیاری اسکولوں میں پڑھ سکتے ہیں، معیاری لباس پہن سکتے ہیں لیکن خود مقتدی دس ہزار کا کوٹ پہن کر تین چار سو روپے کا سوٹ پہننے والے امام پر نکیر کرتاہے۔ امام اگر اپنی صحیح امامت پر اتر آئے تو مقتدی حضرات ایک دن بھی امام کو برداشت نہ کریں گے چنانچہ امام چاپلوسی پر مجبور ہے، امام اپنے مقتدیوں کی حرام خور یوں حرام کاریوں دست درازیوں، چیرہ دستیوں، سیاسی چال بازیوں، گھناؤنی حرکتوں سب کو سنتا اور دیکھتا رہتاہے لیکن مجال ہے کہ کسی امر منکر پر نکیر کردے، ہر مقتدی اپنے اوپر والا پنکھا چالو کرکے نماز پڑھے لیکن امام نہیں کہہ سکتا کہ ایک ہی پنکھے کے نیچے جب دو تین لوگوں کی گنجائش ہے تو الگ الگ پنکھے چلا کر بجلی ضائع نہ کریں۔ امام بے چارہ ایک نمبر کا چاپلوس، ایک نمبر کا دیوث اور ایک نمبر کا مفاد پرست بننے پر مجبور ہے۔

منبر و محراب چاپلوسیوں کے مراکز بن چکے ہیں، حق گوئی نے اپنا بستر لپیٹ لیا ہے، بے باکی کومنوں مٹی تلے دبادیا گیا، نہ بولنے والا امام چاہئے، نہ حق سننے کی عادت رہی، نہ عوام کا ائمہ سے رشتہ مضبوط نہ ائمہ کا عوام سے کوئی تعلق۔ سب اپنی اپنی دنیا میں مست ہیں۔ اور کبھی کبھی تو اپنی اوقات دکھا دیتے پیں چنانچہ ایک امام صاحب کو آٹھ ہزار روپے ملتے تھے ایک دوسرے صاحب پہنچتے ہیں اور متولی سے کہتے ہیں کہ میں پانچ ہزار میں امامت کروں گا متولی نے بلا کسی وجہ کے پہلے امام کو امامت سے دست بردار کردیا اور دوسرے کو رکھ لیا ابھی چند دن ہی امامت کرتے ہوئے تھے کہ ایک اور صاحب پہنچتے ہیں اور پیش کش کرتے ہیں کہ میں تین ہزار میں امامت کے فرائض انجام دوں گا چنانچہ آفر قبول ہوگئی اور ادوسرا امام بھی برطرف کردیا گیا یہ واقعہ کماتدین تدان کی کتنی واضح مثال ہے۔

مقتدی ہر جگہ کے خراب نہیں ہوتے لیکن بہت سی جگہوں کے مقتدی ایسے ہوتے ہیں کہ بات بات پر امام صاحب پر نکیر کا موقع تلاش کرتے ہیں، جینا حرام کرتے ہیں، بے چارہ امام صرف نماز پڑھانے کو امامت سمجھ بیٹھا، بے چاری قوم صرف دو رکعت پڑھ لینے کو اپنی ذمہ داری سمجھ بیٹھی، قوم کیا چیز ہے کسی نے نہیں جانا، قوموں کی امامت کیاہے، فرائض کیا ہیں افسوس دونوں نے پہلو تہی کی، قصور دونوں کا ہے نہ قوام رہے نہ قوم رہی بس "قومیت" کو لے کر ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں، لڑرہے ہیں حالانکہ پتہ دونوں کو ہے کہ اللہ تعالی کے یہاں قبولیت اور برتری کا معیار صرف تقوی ہے۔ وہاں شیخ, سید ,مغل ,پٹھان ,خان ملک، سلیمانی، عراقی، انصاری، عربی،عجمی ،کسی کی کوئی ویلیو ,کوئی عزت ,کوئی مقام وامتیاز نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم سبھی ناپاک قطرے سے پیدا ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ سبھی کو مٹی میں مل جانا ہے۔ وہاں تو صرف نیک اعمال کام آئیں گے۔جس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہائے افسوس

۷/رجب المرجب ۱۴۴۵ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے