65a854e0fbfe1600199c5c82

ازدواجی زندگی دشواریاں اور انکا حل!

 ازدواجی زندگی دشواریاں اور انکا حل!


 مزاجِ بشری کی رعایت اگر کسی مذہب نے کی ہے تو وہ دین اسلام ہے ۔ زمانۂ طفولیت کا بازیچہ ہوکہ دور شباب کے افکار و خیالات ، یا پھر ادھیڑ عمرکی خواہشات اور حسرتیں ہی کیوں نا ہوں ؛ قدم بقدم شریعت مطہرہ ہماری انگلی تھامے صحیح رہنمائی کرتی نظر آتی ہے ۔ انسانی زندگی کا ایک اہم دور ' زمانۂ شباب ' کا ہے ۔ بچپنا جاتا ہے ، شرارتوں پر بندشیں عائد ہوتی ہیں۔ خیالات محو پرواز ، سوچوں کا محور لب بام اور خرمستی ہردم سوار۔ نادانیاں معصیت کے قالب میں ڈھل جاتی ہیں۔ روز و شب کے خیالات وتفکرات بدلتے اور جوان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ فکر وسیع ہوتی ہے، زاویۂ نظر تبدیل ہوتا ہے اور چند روز پہلے تک جو افکار و خیالات مطمح نظر گمان کیے جاتے تھے آج وہ مٹی کے کھلونوں سے زیادہ حیثیت کے نہیں رہ جاتے۔


 زندگی جب اس موڑ پر آجاتی ہے تو انسانی فطرت مختلف انداز میں اپنے تقاضے ظاہر کرتی ہے ۔ مثلاً مرد ہے تو احتلام کا ہونا ، جنس لطیف ہے تو ماہ واری کے ایام کا آجانا ۔ اسی تقاضۂ فطرت کے تحت نکاح کی خواہش دل میں انگڑائی لیتی ہے ۔ عورت مردکی اورمرد ایک عورت کی چاہت رکھتا ہے۔عشق ومحبت کی داستانیں چھیڑنے کو دل چاہتا ہے، جذبۂ محبت تکمیل طلب کرتا ہے اور آتش عشق جَلنے پر بضدہوجاتی ہے شہوت آئے دن بڑھتی ہے، اور اس تقاضے کو دبانے کی کوشش کارگر نہیں ہوتی ۔ گرچہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شدت اشتہا کے توڑ کے لئے روزے رکھنے کا حکم ہے، لیکن وہ بس وقتی علاج ہے۔ اصل تشفی ازدواجی زندگی ہی میں رکھی گئی ہے ۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا شہوت ایک کیفیتِ اشتہا ہے ۔مثلاً بھوک کو وقتی طور پردبایا تو جاسکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ اور خاکی معدے میں جب تک خورد و نوش کی کوئی شئے حلق سے نہ اترے تو بھوک برقرار رہتی ہے ۔

✍🏻:- طلحہ عنایت

 جاری…………

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے