65a854e0fbfe1600199c5c82

کیا کسی کی تکفیر کرنا وحی پر موقوف ہے؟

 ‼️ کیا کسی کی تکفیر کرنا وحی پر موقوف ہے؟


▪️ متجددین کے ایک مغالطے کا جواب!


آجکل بعض متجددین اور نام نہاد مذہبی اسکالرز یہ مغالطہ عام کررہے ہیں کہ واضح طور پر کفر صادر ہوجانے کے باوجود بھی کسی شخص کو کا فر قرار دینا غلط ہے، یہ ہمارا کام نہیں، بلکہ یہ اللّٰہ تعالٰی کے سپرد کردینا چاہیے، یہ کام صرف وحی ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے کہ فلاں کا فر ہوچکا ہے اور چوں کہ وحی حضور اقدس ﷺ کے بعد بند ہوچکی، اس لیے ہم کسی کو کا فر قرار نہیں دے سکتے۔ یہ متجددین ایسی بے بنیاد باتیں پھیلا کر قادیا نیوں، منکرینِ حدیث اور دیگر اہلِ کفر واِرتداد کو فائدہ پہنچانے کی ناکام کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ 

⬅️ واضح رہے کہ ان متجددین کی یہ باتیں اس لیے درست نہیں کہ:

1️⃣ یہ بات قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام اور اکابرِ امت سے کسی طور ثابت نہیں کہ کسی کی تکفیر وحی آنے پر موقوف ہے، اس لیے یہ بات بلا دلیل اور بے بنیاد ہے۔

2️⃣ ایمان اور کفر دو مختلف حقائق ہیں جن میں کوئی ابہام نہیں، ایمانیات بھی واضح ہیں اور کفریات بھی، اس لیے ایمانیات کو تسلیم کرنے والا مؤمن جبکہ ان کا منکر کا فر کہلائے گا، اب یہ اتنی واضح بات وحی آنے پر کیسے موقوف ہوسکتی ہے!!

3️⃣ جب ایمانیات تسلیم کرنے کی وجہ سے کسی کا مؤمن ہوجانا وحی آنے پر موقوف نہیں تو کفریات کی وجہ سے کسی کا کا فر ہوجانا وحی آنے پر کیسے موقوف ہوسکتا ہے!! 

4️⃣ قرآن وسنت میں متعدد باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے یا ان کو ایمان قرار دیا گیا ہے، اسی طرح متعدد باتوں کو کفر قرار دیا گیا ہے، اس سے تاقیامت یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان ایمانیات کو تسلیم کرنا ایمان جبکہ ان کا انکار کرنا یا ان کفریات کا ارتکاب کرنا کفر ہے۔ اس تفصیل سے بھی ان متجددین کی باتوں کی تردید ہوجاتی ہے کہ جو کسی کی تکفیر کو وحی آنے پر موقوف کرتے ہیں۔

5️⃣ اگر کا فر ہوجانے کو وحی آنے کے ساتھ جوڑا جائے تو ایمان وکفر خلط ملط ہوجائے گا، لوگ یہ نہیں جان سکیں گے کہ کون مؤمن ہے اور کون کافر؟ حالاں کہ اسلام جیسا واضح دین اس خلط ملط کو کبھی قبول نہیں کرسکتا۔

6️⃣ اس بات کی تردید یوں بھی ہوجاتی ہے کہ اسلام میں مؤمن اور کا فر کا باہمی نکاح نہیں ہوسکتا، اسی طرح کا فر کا ذبیحہ بھی حرام ہے، تو اگر کا فر ہوجانے کو وحی آنے کے ساتھ جوڑا جائے یا اللّٰہ تعالٰی کے سپرد کردیا جائے تو ایسی صورت میں ان جیسے تمام شرعی احکام معطل ہی ہوجائیں اور ان پر عمل ہی نہ ہوسکے، حالاں کہ ایسے احکام واضح خبر دیتے ہیں کہ ایمان وکفر دو واضح اور ظاہر چیزیں ہیں جن میں امتیاز ضروری ہے اور اس امتیاز کو وحی آنے پر موقوف نہیں کیا جاسکتا۔

7️⃣ اسلام واحد حق دین ہے جس کی تعلیمات نہایت ہی روشن اور جس کی بنیادیں بہت ہی واضح ہیں، اس میں ایمانیات ایک کھلی حقیقت ہے، ان میں ایسا کوئی ابہام نہیں کہ یہ کسی اور کے ساتھ خلط ملط ہوجائیں، اسلام اپنی کھلی حقیقت میں یہ کبھی گوارہ نہیں کرسکتا کہ اس کی حقیقت کفر جیسے سنگین جرم اور قبیح فعل کے ساتھ گڈ مڈ ہوجائے اور دونوں میں باہم فرق نہ ہوسکے، اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ایمانیات اور کفریات اور اسی طرح مؤمن اور کا فر واضح ہوں، اس حقیقت کا بھی تقاضا یہ ہے کہ تکفیر کے اصول بھی بالکل واضح ہوں۔

9️⃣ جس ملک کے قوانین میں ایسا سقم اور ابہام ہو کہ فرمان بردار اور باغی کا فرق نہ ہوسکے اور مخلص اور غدار نمایاں نہ ہوسکیں تو اس ملک کے قوانین ناقابلِ تقلید بلکہ قابلِ تردید ہوتے ہیں جو کہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے بھی مضر ہوتے ہیں، تو کیا اسلام جیسے حق دین میں بھی یہ امکان ہوسکتا ہے کہ وہ مؤمن وکافر اور مخلص ومرتد میں فرق نہیں کرتا بلکہ سب خلط ملط کردیتا ہے! ہرگز نہیں!!


▪ ایمان اور کفر کی حقیقت سے متعلق مزید تفصیل کے لیے دیکھیے بندہ کا رسالہ: ایمان اور کفر۔


✍️ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

4 جمادی الآخرۃ 1442ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے