65a854e0fbfe1600199c5c82

انکارِ حدیث کی بے بنیاد عمارت

 آج سے تقریبًا دس سال پہلے ایک منکرِ حدیث کے ساتھ مباحثے کی پہلی نشست میں جب میں نے قرآن کریم کی دو آیات پیش کرکے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم کے علاوہ بھی کوئی وحی نازل ہوئی ہے جس کو حدیث کہتے ہیں اور احادیث حجت اور دلیل بھی ہیں۔ تو انھوں نے ان دونوں باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے یہ آیات اپنے پاس نوٹ کرلیں اور کہا کہ بس یہ کافی ہیں۔ تو میں نے کہا کہ نہیں، ابھی تو صرف دو آیات پیش کی ہیں، اس کے بعد میں نے تین چار آیات مزید پیش کیں، تو وہ سب انھوں نے نوٹ کرلیں۔ اس کے چند دن بعد مباحثے کی دوسری نشست میں کہنے لگے کہ آپ نے اس دن جو آیات پیش کی تھیں ان کی تفسیر تو غلام احمد پرویز نے کچھ اور بیان کی ہے۔ تو میں نے کہا کہ میں نے تو اس دن آپ کے سامنے کسی کی بھی تفسیر بیان نہیں کی تھی بلکہ آپ کے سامنے تو صرف ترجمہ والا قرآن کریم رکھا تھا، اسی میں آپ نے خود وہ آیات دیکھیں اور ان کا ترجمہ سمجھا اور قائل ہوگئے، تو یہ آپ غلام احمد پرویز کی تفسیر کیوں پیش کررہے ہیں؟؟ تو وہ خاموش ہوگئے۔ تو میں نے یہ پہلو سامنے رکھا کہ دراصل غلام احمد پرویز نے ان تمام آیات کا خود ساختہ مطلب بیان کرنے کی کوشش کی ہے جن سے کسی بھی درجے میں احادیث کا وجود اور ان کا حجت ہونا ثابت ہوسکتا تھا، حالانکہ امت میں کسی نے بھی وہ تفسیر نہیں لکھی۔ تو پوری امت کے مفسرین اور اہلِ علم کو چھوڑ کر غلام احمد پرویز کی خود ساختہ تفسیر کیوں مانیں؟؟ مزید یہ کہ پھر اس طرح حق وباطل کا فیصلہ کیسے ہوسکے گا کہ جب آپ اپنی تفسیر بیان کریں گے اور میں اپنی؟؟ تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ لاؤ ہم ایک ایسا اصول طے کرلیتے ہیں جس کے ذریعے ہم دونوں اپنی اپنی تفسیریں جانچ سکیں اور اس کا صحیح یا غلط ہونا جان سکیں۔ سو اگر آپ کے پاس کوئی اصول اور پیمانہ ہو تو پیش کیجیے۔ تو وہ کچھ سوچنے کے بعد کہنے لگے کہ میرے پاس تو ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہے، آپ ہی پیش کردیں۔ تو میں نے کہا کہ جی میرے پاس ایک ایسا پیمانہ اور معیار ہے اور وہ بھی قرآن کریم کی ایک آیت سے پیش کرتا ہوں اور وہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 115 ہے: ’’وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَیَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتۡ مَصِیۡرًا‘‘، اس سے واضح ہوتا ہے کہ سبیلُ المؤمنین یعنی مؤمنین کے اجماعی راستے کو چھوڑ کر کسی اور رستے پر چلنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔ اس میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ آپ کے عقائد، نظریات، اعمال اور تشریحِ دین؛ سبھی کچھ اگر سبیل المؤمنین اور اجماعِ امت کے مطابق ہیں تو وہ معتبر اور درسر ہیں ورنہ تو مسترد اور غلط ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کی بیان کردہ تفسیر سبیل المؤمنین کے خلاف ہے یا موافق ہے؟ سو آپ آیت کا جو بھی مطلب بیان کریں گے وہ سبیل المؤمنین سے ثابت کریں گے، اور میں بھی جو مطلب بیان کروں گا وہ سبیل المؤمنین سے ثابت کروں گا۔ لیکن وہ منکرِ حدیث اس پر راضی نہ ہوا، تو میں نے کہا کہ یہ اصول تو میں نے قرآن سے پیش کیا ہے، آپ پھر بھی تیار نہیں ہورہے، حیرت ہے! تو میں نے اس کو کہا کہ ظاہر ہے کہ آپ یہ اصول کیسے مان سکتے ہیں جبکہ غلام احمد پرویز کی تمام تر تفسیرات وتحقیقات ہی سبیل المؤمنین کے خلاف ہیں، یوں تو ان کے غلط نظریات کی ساری عمارت ہی زمین بوس ہوجائے گی! اور ہاں انکارِ حدیث پر مشتمل آپ کا یہ نظریہ بھی سبیل المؤمنین کے خلاف ہے۔ تو وہ خاموش اور لاجواب ہوگیا۔ 

الحمدللّٰہ کہ بندہ کو اس بات پر یقین ہے کہ انکارِ حدیث سمیت کسی بھی کفریہ اور گمراہ کن نظریے پر کوئی معتبر دلیل ہو ہی نہیں سکتی! اس لیے عوام سے گزارش ہے کہ اپنے علمائے کرام اور بزرگانِ دین سے وابستہ رہیں تاکہ ہر قسم کی گمراہی اور فتنے سے حفاظت رہے۔


✍️ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے