65a854e0fbfe1600199c5c82

دارالعلوم کی رونقیں

 


پارک کے اس حصے میں بحر العلوم مولانا نعمۃ اللہ کی مجلس لگا کرتی تھی۔ اساتذہ کے اصرار پر یہ سلسلہ لاک ڈاؤن کے آخری سال شروع ہوا تھا۔ دارالعلوم کی رونقیں بحال ہونے لگی تھیں، طلبہ گھروں سے لوٹ رہے تھے اور اساتذہ کے ساتھ انہیں بھی شرکت کی اجازت مل گئی تھی۔ میں بھی حاضر ہوتا اور بے حس و حرکت دو زانو بیٹھا رہتا۔ سامنے اساتذۂ دارالعلوم اور حضرت بحر العلوم تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ کسی نہ کسی موضوع پر خوش گوار بحث ہوتی رہتی۔ بے تکلف اور با ادب گفتگو، ہلکا پھلکا مزاح اور حکمت و معرفت کی باتیں، لطائف نوک زبان پر آجاتے تو قہقہے بھی لگتے تھے۔ یوں ہی علم کے موتی بکھرتے رہتے اور طلبہ اپنے خالی کشکول آگے کردیتے تھے۔ میں اساتذہ دارالعلوم کو یوں رونق افزا دیکھ کر چشم تصور سے علماء دیوبند کو دیکھا کرتا تھا۔ عجیب سی کیفیت دل پر سوار رہتی۔ کبھی خیال آجاتا کہ امتیوں کا یہ حال ہے تو محبوب رب کائنات کی رفعت شان کا کیا کہنا، تو لرزہ براندام ہوجاتا اور فوراً نظر اپنی نامہ سیاہی پر جاتی۔ محسوس ہوتا جیسے میں نے اپنے گندے تصور سے اس پاکیزہ ہستی کو دیکھ کربھی غلطی کی ہے۔ اسی شہ بطحاء کے دامن تر کی چند چھینٹیں یہاں بھی گر گئیں تھیں اور یہ خطہ گلزار ہوگیا تھا۔ اسی مجلس میں معلوم ہوا کہ باب الظاہر کے سامنے کھڑا کھجور کا درخت شیخ الاسلام کا لگایا ہوا ہے۔ اس درخت نے دارالعلوم پر پچھلی نصف سے زائد صدی کا ہرلمحہ گزرتے دیکھا۔ ہرنشیب و فراز جھیلا، ہر طوفان کا مقابلہ کیا اور یوں ہی کھڑا رہا۔ اپنے لگانے والے کی طرح جامد و ساکت، بے چون و چرا اور بے آہ بکا۔ اوریوں ہی یہاں کے ہر منظر اور ہر خوبصورت لمحے کو اپنے اندر سمیٹ کر اگلوں کو منتقل کرتا رہے گا۔ خدا یہ چمن کو شاد و آباد رکھے اور ہمیں، اس کے شیداؤں پر بھی ایک نظر رحمت فرمادے۔ کہ : 


غلطاں بخاک میکدہ رقصاں بگرد جام جم 

چشم طلب سوئے مغاں در شوق جام کیستم 


(میکدے کی مٹی میں لتھڑا ہوا، جام جہاں نما کے گرد رقص کرتا ہوا میں چشم طلب سے پیر مغاں کو دیکھ رہا ہوں ، کس کے جام کے شوق میں؟! (بس اسی کے جام کے عشق میں))  

Huzaifah Sabih

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے