65a854e0fbfe1600199c5c82

کنارے سے ہٹ جائیں

 کنارے سے ہٹ جائیں


کھیتوں کے کناروں پر عموما فصل کم اُگتی ہے، کیونکہ وہاں راستے بنے ہوتے ہیں اور لوگوں کی آمد و رفت زیادہ رہتی ہے جس کی وجہ سے کناروں پر اُگنے والے بوٹے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں اور بڑے ہو کر پیداوار نہیں دے پاتے۔ اسی طرح جب بھی کوئی جانور فصل میں داخل ہوگا تو سب سے پہلے کنارے پر لگی فصل کو روندے گا، پھر آگے جائے گا۔ کناروں پر رہنے والے لوگوں کا بھی یہی حال ہے۔ نہ ان کی کوئی خاص دنیا بنتی ہے اور نہ آخرت۔ زمانے کی گرم و سرد ہواؤں میں ہچکولے کھاتے رہتے ہیں اور بالآخر اُکھڑ جاتے ہیں۔ 


ہم میں سے کئی لوگ دین و دنیا کے معاملات میں کنارے پر کھڑے ہیں۔ اگر دین کی بات کی جائے تو کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کلمہ پڑھ لیا، اللہ رسول پر ایمان بھی لے آئے لیکن ابھی تک اطمینانِ قلب نہیں مل پایا۔ ابھی تک اپنے دین پر اعتماد نہیں ہو رہا۔ سوچ بچار میں ہیں کہ دین کی کس بات کو مانیں اور کس کو چھوڑیں۔ چنانچہ جو باتیں مزاج و طبیعت کے مطابق پاتے ہیں یا جن میں کوئی فائدہ نظر آتا ہے تو انہیں فورا ایکسسپٹ کر لیتے ہیں، وہاں دینداری کا دم بھرتے ہیں اور جہاں نفس یا خواہش کے خلاف حکم جا رہا ہو وہاں پھس پھسے ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ دنیا میں کامل طور پر لذت حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ آخرت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ آخرت میں ابتداء ہی سے جنتی نعمتوں کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں کیونکہ نفسانی خواہشات کا اتباع کر رہے ہیں۔ 


اسی طرح ہمارے ہاں تقریبات میں جانا بھی غرض سے متعلق ہوگیا ہے۔ یعنی ہم نے وہیں جانا ہے جہاں ہماری غرض پوری ہوگی۔ اگر معلوم ہو جائے کہ فلاں جگہ جانے سے کچھ نہیں ملے گا تو ہم کبھی بھی ہمدردی، مسلمان کی خوشی یا خیر خواہی کی بناء پر سفر نہیں کریں گے۔ دینی جلسوں میں باقاعدہ پہلے پوچھا جاتا ہے کہ کھانا ہوگا یا نہیں؟ اگر کھانا ہے تو ٹھیک ہے دینی جلسہ میں جائیں گے، بزرگوں کی زیارت ہوگی، علمائے کرام کے بیانات سنیں گے۔ اگر کھانا نہیں تو پھر ان ساری چیزوں کی ضرورت نہیں، یوٹیوب سے کسی مولوی کو سن لیں گے (اگرچہ وہ بھی بعد میں سننے کا موقع نہیں ملتا۔) 


دنیاوی معاملات میں بھی ہم کنارے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جب تک فائدہ ہماری جیب میں نہیں آتا ، ہم شریف اور دوسرے کے ہمدرد کہاں بنتے ہیں؟ کتنے لوگوں کو دیکھا جو کسی ادارے، کمپنی یا فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور ان کا مطمح نظر اپنا فائدہ ہوتا ہے۔ جب تک انہیں اچھی سیلری، سہولیات، عزت وغیرہ ملتی رہے تو مرید بن کر رہیں گے، جس دن انہیں محسوس ہوگا کہ یہاں ادارہ کے فائدہ کی وجہ سے ان کے فائدہ کو ٹھیس پہنچ رہی ہے تو فورا غیبت اور خامیاں بیان کرنا شروع کر دیں گے۔ وہی لوگ جو پہلے دینار کی مدح کر رہے تھے، کچھ منٹوں بعد ذم کرنے لگ جائیں گے۔ 


کنارے پر کھڑا ہونے والا وہ موتی کیسے حاصل کر سکتا ہے جو گہرائی میں Dive in والا حاصل کرتا ہے؟ اس لیے قرآن ہمیں کنارے پر کھڑے ہونے سے منع کرتا ہے:


وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍۚ- فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ ﰳاطْمَاَنَّ بِهٖۚ- وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ-ﰳانْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ۫ۚ -خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَؕ- ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ


اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو ایک کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ چنانچہ اگر اسے کوئی فائدہ پہنچ گیا تو وہ اس سے مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آگئی تو وہ منہ موڑ کر چل دیتا ہے۔ ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی، اور آخرت بھی۔ یہی تو کھلا ہوا گھاٹا ہے۔


 قرآن کا کہنا ہے کہ جو لوگ کنارے پر کھڑے ہو کر کام کرتے ہیں، وہ خسارہ پاتے ہیں۔ دین ہو یا دنیا بندہ صاف اور ایک طرف ہونا چاہیے۔ دونوں طرف کھیلنا پسندیدہ نہیں۔ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوبتا ہے۔ ممکن ہے کنارے پر کھڑے ہو کر کام کرنا ظاہری طور پر کچھ نفع دے جائے لیکن حقیقت اور انجام خوشگوایت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگ کناروں پر کھڑی فصل کی طرح روندے جاتے ہیں۔ اس کے مقابل قرآن ہمیں استقامت (یعنی جم جانا) اور ثابت قدمی کی طرف بلاتا ہے۔ چنانچہ کلمہ طیبہ کی کجھور کے درخت کے ساتھ مثال دیتے ہوئے کہا:


اَصْلُهَا ثَابِتٌ


اس کی جڑ (زمین میں) مضبوطی سے جمی ہوتی ہیں۔


 مومن کےلیے جماؤ اور قرار ضروری ہے تاکہ آندھیاں اور طوفان اسے گرا نہ سکیں۔ اس کے مقابل کفر ہے جس کی بنیاد کمزور ہے، اس لیے اب تک مسلسل مسلمانوں کے ہاتھوں اکھڑتا چلا آیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:


اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ

(کفر ایک خراب درخت کی طرح ہے جسے ) زمین کے اوپر ہی اوپر سے اکھاڑ لیا جائے، اس میں ذرا بھی جماؤ نہ ہو۔


زندگی کی ہر رات اور دن میں جماؤ پیدا کریں۔ کنارے سے ہٹ کر بیچ سمندر کود جائیں۔ جس فیلڈ کا انتخاب کر چکے ہیں، اس میں جڑیں مضبوط کریں، اس کی گہرائی میں اتریں، ساحل پر کھڑے ہو کر صرف جھانکیں نہیں۔ ایمان و عقائد میں ڈوب جائیں، استقامت کی راہ کے مسافر بنیں، عزیمت کو اپنا رفیق سفر بنائیں۔ کلمہ اور اس کے تقاضوں پر مضبوطی سے کاربند رہیں تاکہ دنیا و آخرت کے خساروں سے بچ سکیں۔


محمد اکبر

1 فروری 2024ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے