65a854e0fbfe1600199c5c82

مریض مافیاؤں کی من مانیاں کب تک؟

 


سنو سنو!!
مریض مافیاؤں کی من مانیاں کب تک؟


(ناصرالدین مظاہری) 


دواؤں پر کمیشن، مریضوں پر کمیشن، چیک اپ پر کمیشن، جانچ پر کمیشن، کمیشن پر کمیشن، ریفر پر کمیشن، ایکسپائر دوائیں، بے مقصد فالتو دوائیں، غیرضروری ٹیسٹ، مریض کے مرض کی تقریر ایسےانداز میں کرنا کہ مریض مزید ٹینشن کاشکارہوجائے اور اس کے گھر والے علاج ومعالجہ سے مایوس ہوجائیں، بے سند ڈاکٹروں کی الگ دنیا ہے، وہ تو دے دلاکر اپنی دکان چمکانے میں مصروف ہیں ان سے ماہانہ یا ہفتہ واری وظیفہ سرکاری نوکروں کو جانا اور بلا استحقاق ایسے انسان دشمنوں کو سرکاری تصدیق جاری کرکے عوام اور سرکار سے غداری، نقلی دوائیں، نقلی غذائیں، نقلی چیک اپ آہ! کیا بتاؤں پورا ملک ناک تک کرپٹ لوگوں کے چنگل میں ہے، مریض سے ہمدردیاں ختم ہوچکی ہیں، اخلاق و انسانیت،شرافت و ایمانداری کا جنازہ نکل چکا ہے، ڈاکٹروں نے انسانیت کو ہی کاندھا دے دیا ہے، جرائم پیشہ لوگوں نے جرم کی اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے ہیں، غریبوں کے ساتھ ان کے رویے کو دیکھ کر آپ نہیں کہہ سکتے کہ یہ انسان ہوں گے، مریض اپنے گھر سے نکلتے ہی فروخت ہوجاتاہے، علاقہ یا محلہ کا پہلا جھولا چھاپ ڈاکٹر پہلے خود دونوں ہاتھ سے مریض کو لوٹ لیتا ہے پھر پہلے سے طے شدہ حسب معاہدہ مریض کو ریفر کرکے اس ڈاکٹر یا اسپتال سے کمیشن لے لیتا ہے، پھر وہ بھی ہاتھ سینک کر یعنی ڈکیتی ڈال کر آگے بھیج دے گا، حقیقت تو یہ ہے کہ ایمبولینس والے بھی معاہدہ کرلیتے ہیں، دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں سے سازباز کرلیتی ہیں، نقلی یا ملاوٹی غذائیں اصل غذاؤں سے مہنگی کھائی وبیچی جارہی ہیں، مریض سے ہر ہفتہ نیا پرچہ بنوانے کے نام پر ٹھگی ہورہی ہے، ادھر ان پڑھ وزارت کےان پڑھ نوکر بھی خوب لوٹ رہے ہیں، کسی کو بھی نہ شرم ہی نہ غیرت ہے، نہ اخلاق ہے نہ اخلاص ہے۔


مہنگی ترین رپورٹیں، نہایت ہی قیمتی دوائیں ڈاکٹروں کی ایک ہاں میں برباد ہوجاتی ہیں، جہاں سے کمیشن طے ہے وہیں سے جانچ کرانے پر ہی علاج شروع کریں گے، جن کمپنیوں کمیشن طے ہے دوا وہیں کی لکھیں گے، اسی چکر میں ڈاکٹروں نے اپنے اسپتال بنالئے، اپنے پیتھولوجی سینٹر قائم کردئے، اپنی دواساز کمپنیاں کھڑی کردیں، اپنا پورا گھر اور گھرانا ڈاکٹر بنادیا، بھارت کی تعلیم مہنگی لگی تو یوکرین اور روس بھیج دیا، انگوٹھا چھاپ ڈاکٹروں سے جھولا چھاپ بلکہ روپیہ چھاپ ڈاکٹروں تک سب کے بلے بلے ہیں، منہ مانگی فیس، من مانی فیس، بے تحاشہ فیس، ویسے تو ہفتہ سات دنوں کا ہوتا ہے لیکن ڈاکٹروں کا پانچ دن کا ہوتا ہے، جیسے موبائل کمپنیوں کا مہینہ کبھی بھی اٹھائیس دن سے آگے نہیں بڑھتا، قزاقوں کے درمیان عوام کا برا حال ہے، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، اور تماشہ یہ کہ سرکار کو کوئی سروکار نہیں ہے، ہر ڈاکٹر، ہاسپٹل شتر بے مہار ہے اور سرکاری نکیل کا غائب ہے۔


میں کہتا ہوں مریض مافیاؤں کی یہ حرام خوری کب تک چلے گی؟ کیوں ان کے سینہ سے دل غائب ہوچکاہے؟ کیوں ان کے سروں سے دماغ ختم ہوچکا ہے؟ کیوں ان کے اندر سے انسانیت عنقا ہوچکی ہے؟ کون انھیں لگام لگائے گا؟ کون ان کے خلاف آواز اٹھائے گا؟ آج اس طبقہ کا ظلم تمام تر کرپٹ شعبوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، واحد کاروبار ہے جس میں عوام مجبور ہے اور سرکار ان مظلوموں کی اشک شوئی کے لئے دور دور تک نظر نہیں آتی۔ 


(پانچ شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے