65a854e0fbfe1600199c5c82

’’اور سناؤ‘‘

 


سنو سنو!


’’اور سناؤ‘‘


(ناصرالدین مظاہری)


 آپ کے پاس رات دیر میں کال آجائے تو آپ پریشان ہوکر اٹھیں گے ، دھڑکتے دل سے فون کوکان سے لگائیں گے، سہمی آواز میں سلام کریں گے، اب اگر ادھر سے کہا جائے:


’’اور سب خیریت ہے، مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ آپ نے کھانا وانا کھالیا یا نہیں؟ اس وقت کیا کررہے ہو؟ اچھاہاں میں کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ‘‘


ایک تو نمبر اجنبی نمبر، دوسرے نہ سلام نہ دعا، نہ تعارف نہ شناخت، ڈائریکٹ بے تکلفی پر اتر آنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ میرے پاس ایسے نمونوں کے بے شمار فون آتے رہتے ہیں، ایک تو لوگ خدا جانے کتنی فرصت میں ہیں کہ لمبی لمبی گفتگو کریں گے۔ جب انسان کس کیتپ جائے توپھر بولیں گے اور’’ سب خیریت ہے‘‘۔ کچھ دیر اور گزرے گی تب پھر یہی جملہ ارشادہوگاکہ ’’اور سناؤ‘‘واللہ ! اب اس جملہ سے ہی چڑ ہونے لگی ہے، لوگوں کو باتوں میں الجھانے کے لئے اس’’اور سناؤ‘‘سے زیادہ تپانے اورپکانے والاجملہ شایدہی موبائل پراستعمال کیاجاتاہو۔


اصل میں ہم لوگوں کووقت کی قدرنہیں ہے،جووقت ہم فون پرخرچ کرتے ہیں ہماری خام خیالی یہ ہوتی ہے کہ یہ وقت کام میں آرہاہے ۔میں فون کرنے سے منع نہیں کرتالیکن میانہ روی اوراعتدال بھی کوئی چیزہے ، عزیزواقارب سے توبنتی نہیں ،سگے رشتہ داروں سے اَن بَن رہتی ہے،ان سے بات کئے زمانہ ہوجاتاہے جب کہ اُن ہی سے صلہ رحمی کی تاکید ہے،قرآن اوراحادیث میں اپنے رشتہ داروں سے تعلق اور ہمدردی کے احکامات موجودہیں۔پڑوسیوں سے خوشگوار تعلقات استوار رکھنے کاحکم ہے ،والدین ،بہن بھائیوں سے رابطہ رہناچاہئے ،ہزاراختلاف رائے اورتکدرکے باوجودآپ اپنے خونی رشتوں سے دوری اختیارنہ کریں،ان سے ملیں، جائیں، بلائیں ،کھائیں،کھلائیں ،شادی وغمی میں شریک رہیں یہی تواسلام کی تعلیم ہے ۔لیکن ہم سے یہ نہیں ہورہاہے ،ہم اپنے تعلقات میں اپنا مفادتلاش کرتے ہیں ،جن سے کوئی مادی یادنیوی فائدہ نہیں ہے ان سے عرصہ تک لاتعلق رہتے ہیں اورجن سے کسی بھی طرح کافائدہ نظرآتاہے انھیں صبح وشام سلام کرتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ کاارشادہے:


الَّذِیْنَ یُوفُونَ بِعَہْدِ اللّہِ وَلاَ یِنقُضُونَ الْمِیْثَاقَ،وَالَّذِیْنَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُونَ سُوء َ الحِسَابِ، وَالَّذِیْنَ صَبَرُواْ ابْتِغَاء وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرّاً وَعَلاَنِیَۃً وَیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُوْلَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ، جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَالمَلاَئِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ، سَلاَمٌ عَلَیْْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار۔


ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ،اور نماز قائم کی ، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ’’سلام ہو تم پر‘‘ بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔


حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں) کو؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تْجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھے ا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔


 ہمیں اپنے فون کااستعمال لغواوربے کارباتوں میں نہ کرکے مثبت اوراچھی چیزوں میں استعمال کرناچاہئے،یہ فون ایک یونیورسٹی سے جہاں دنیابھرکی اچھائیاں اورخرابیاں موجودہیں آپ اس کے ذریعہ اچھائیوں کی تلاش اورجستجومیں رہئے۔کتابیں پڑھئے،قراء کی قراء ت اورنعتیں سنئے،اچھی چیزیں اپلوڈاور ڈاؤنلوڈکیجئے،ہربرے کام سے پرہیزکیجئے ،اپنی خلوت اورجلوت کویکساں بنایئے، جس دن ہماری تنہائیوں اورخلوتوں میں دین مکمل طورپرداخل وشامل ہوجائے گاان شاء اللہ کامیاب ہوجائیں گے۔


جناب اکبرالہ آبادی کاشعرہے:


بہت مشکل ہے بچنابادۂ گلگوں سے خلوت میں


بہت آساں ہے یارومیں معاذاللہ کہہ دینا


ہمیں ہرقدم پریہ دھیان رکھناہے کہ اللہ ہماری ہرنقل وحرکت سے واقف ہے،اس کے فرشتے ہمارے دائیں بائیں موجود ہیں، اس کادیاہوایہ جسم ہمارانہیں ہے اسی کاہے ،اس کے سامنے جب یہ جسم پہنچے گاتویہ ہماری ایک ایک حرکت کومن وعن بیان کردے گا،جس جگہ پرہم کوئی بھی غلط کام کررہے ہیں وہاں کی ایک ایک چیزحتی کہ درودیواربھی اس کے گواہ بن جائیں گے ،یعنی ہمارے لئے فرارکی تمام راہیں اورراستے مسدودہوجائیں گے بلکہ ہماری بولتی ہی بندہوجائے گی کیونکہ اس دن زبانوں پرمہرلگادی جائے گی الیوم نختم علی افواہہم وتکلمنا ایدیہم وتشہد ارجلہم بما کانوا یکسبون۔باقی سب چیزوں کوزبان دیدی جائے گی ہمارے ہاتھ بتائیں گے کہ ان ہاتھوں سے کیاکیاکیاگیاہے،ہمارے پیرگواہی دیں گے کہ ان پیروں سے کہاںکہاںگیاہے،ہماراسیاہ وسفید رجسٹر پیش کردیاجائے گا۔اس دن کوئی حیلہ بہانہ ،کوئی راہ فرار نہیں مل سکے گی۔اللہ تعالیٰ کودھوکہ دیناناممکن ہے ،وہ ہماری ایک ایک عیاری ومکاری سے ہم سے زیادہ واقف ہے وہاں صرف سچ ہوگا،سچائی ہوگی،حق ہوگا،حقیقت ہوگی، اس دن کے لئے ہمیں اپنی تیاریوں اورایگزام (امتحان) کا جووقت اس دنیامیں دیاگیاہے ہمیں اِس وقت کوغنیمت جانناچاہئے۔


’’اورسناؤ‘‘سے بہترہے کہ ہم اوراللہ کی سنیں،رسول کی سنیں،اللہ والوں کی سنیں،سنیں بھی اورعمل بھی کریں۔


کاردنیاسے فراعت ہی عزیزوں کو نہیں 


پھرکہیں ان سے الی ربک فارغب کیوں کر


٭٭٭

(10/شعبان المعظم 1445ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے