65a854e0fbfe1600199c5c82

مدرسہ چھوڑنے سے پہلے


 سنو سنو!! 
مدرسہ چھوڑنے سے پہلے


(ناصرالدین مظاہری) 


حضرت عبدللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام سے کہیں بھیجا تو فرمایا:

استودع الله دينك وامانتك وخواتيم عملك".


”میں تیرے دین کو، ‏‏‏‏تیری امانت کو اور تیرے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں"


یہ کلمات مجھے اس لئے یاد آئے کہ ہمارے طلبہ بھی طویل رخصت پر مدارس کو الوداع کہنے والے ہیں، ان طلبہ میں سے بڑی تعداد تو ایسے طلبہ کی بھی ہے جو فارغ التحصیل ہوکر جارہی ہے، طلبہ کی یہ دوسری قسم ہی اصل میں کسی بھی مدرسہ کی محنتوں کا ثمرہ ہے، آٹھ دس سال تک بال بچوں کی طرح پالنے، کھلانے اور تعلیم وتربیت کرنے میں قوم کا کتنا پیسہ لگا ہے، اساتذہ کی کتنی محنتیں صرف ہوئی ہیں، ملازمین نے کتنی جفاکشی کی ہے اس کا تصور اور اندازہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ انسان تجربات سے ہی سیکھتا ہے اور تجربہ کی دنیا سے سابقہ اور واسطہ اب پڑنے والا ہے۔ یہ وقت مدارس کے لیے کسی بھی آزمائش اور امتحان سے کم  نہیں ہوتاہے کیونکہ دس سال کی کڑی محنت کے بعد جو مال قوم کے درمیان بھیجا جارہاہے یعنی ایکسپورٹ کیا جارہاہے وہ مال قوم اورعوام کی پسند کاہے بھی یانہیں، ان کی توقعات پر کھرا اور پورا اترا بھی ہے کہ نہیں؟ قوم نے جو امیدیں باندھ رکھی ہیں ان کی امیدوں کے مطابق مال تیار بھی ہوا ہے کہ نہیں۔ کیونکہ مدارس بھی تو ایک کمپنی اور فیکٹری کے مانند ہیں، جو کمپنی جتنا اچھا معیاری اور بہترین مال تیار کرتی ہے لوگ اس کو منہ مانگی قیمت سے خرید لیتے ہیں اور جومال صحیح طورپر تیار نہ ہوا ہو اس کو بیچنا مشکل اور ٹھکانے لگانا بھی پریشان کن مرحلہ ہوتاہے۔ 


ہمارے مدارس کے طلبہ جو فارغ ہورہے ہیں ان میں کچھ تومتخصصین ہیں، کچھ قراء اور حفاظ ہیں، کچھ عالم وفاضل ہیں، سب کے میدان الگ الگ ہیں ، قیمتیں بھی الگ الگ ہیں، یہاں قیمت ڈگری سے نہیں اہلیت سے طے ہوتی ہے، آپ بھلے ہی عالم نہیں ہیں لیکن بہترین مجود ہیں تو پھر قوم آپ کو اپنی پلکوں پر بٹھائے گی، فخر کرے گی، آپ اچھی تقریر کرلیتے ہیں تو سمجھو کامیاب ہو، مسئلہ مسائل پر درک وقدرت حاصل ہے تو پھر مزے ہی مزے ہیں یعنی عوام کی پسند کے مطابق مال ہونا چاہئے بس۔ 


لیکن اگر مال اچھا نہیں ہے، کچااور خام ہے، رطب ویابس ہے، تو سمجھو کہ یہ کھیپ اپنے مدرسہ کی بدنامی کا ذریعہ بنے گی۔ 


میں تو کہتاہوں مدارس کے ذمہ داران اپنے فاضلین وکاملین کی تربیت بھی اس پہلو کو رکھ کر کریں کہ قوم کے درمیان کیسے رہنا ہے، کیسے ان کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے، کیسے ان کے مزاج کو پڑھ کر ان کو ان کی زبان میں سمجھانا اور راہ راست پر لانا ہے، کیسے اپنی عزت، اپنی انا، اپنی خودی وخودداری کو محفوظ رکھنا ہے، ان سب کے ساتھ کیسے اپنی افادیت ثابت کرنی ہے۔ 


اب تقریبا تمام دینی مدارس میں سالانہ امتحانات ہونے والے ہیں ایک پرچہ ان کے اخلاق اور معاشرت کا بھی ہونا چاہئے، مدارس میں جتنا عرصہ رہے ہیں اس کا محاسبہ ہونا چاہئے، اساتذہ کی شان میں اگر گستاخی ہوگئی ہے تو فورا سے پہلے معافی تلافی ہونی چاہئے، اساتذہ سے ربط وتعلق اور خط وکتابت برقرار رہنی چاہئے، زندگی کے اہم معاملات میں ان سے مشورہ لیجیے، ان کو مقدور بھرتحفے تحائف بھیجتے رہئے، یہ سب چیزیں اساتذہ کی دعا اور توجہ کے حصول میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں۔ 


اپنے رفقائے درس، اپنے ہم حجرہ ساتھیوں سے بھی تعلقات برقرار رکھیں، ایک دوسرے کی سرگرمیوں سے آگاہ رہیں، ایک دوسرے کا سپورٹر اور سہارا بنیں۔ 


اسی طرح اب آپ عوام کے درمیان جارہے ہیں تو فرق مراتب کا لحاظ کرنا سیکھ لیں، کتابیں جو مدرسہ نے مفت میں دی ہیں ایک ایک کتاب جمع کرکے جائیں، مطبخ کا، وظائف کا، کتب خانے کا ہر دفتر کا حساب بیباق رکھیں، اپنے کسی استاذ سے یا ساتھی سے قرض لیا ہوتو وقت موعود پر واپس ضرور کردیں۔ 


جانے کے بعد اپنے ادارہ کی ترجمانی سے ہرگز غفلت نہ برتیں،یہ آپ کا اپنا گھر ہے اس گھر کی دیکھ ریکھ، تعمیرو ترقی وغیرہ سب میں آپ کی عملی شرکت ضروری ہے۔ ادارہ کا کوئی نمائندہ پہنچے تو اس سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں، آتے جاتے رہیں، ملتے ملاتے رہیں، یہ سب چیزیں دارین کی ترقی کی ضامن ہیں۔ 

اللہ تعالی ہماری اصلاح فرمائے۔ 


(۲۴/رجب المرجب ۱۴۴۵ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے