65a854e0fbfe1600199c5c82

ایکسپائر ڈیٹ



 سنو سنو!!
ایکسپائر ڈیٹ


(ناصرالدین مظاہری)

نزلہ، سردرد، پیر درد، اسہال، بخار وغیرہ بہت سی دوائیں وہ اپنے ساتھ سفر عمرہ پر لیتا گیا تھاارادہ یہ تھا کہ اگر کسی ساتھی کو ضرورت ہوئی تو کام آجائے گی، کیونکہ نیت تو بہرحال اچھی تھی۔آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے عموما لوگ وہاں پہنچ کر بیمار ہوجاتے ہیں چنانچہ ان کا بھی ایک ساتھی بیمار ہوگیا ، ثواب سمجھ کر انھوں نے اپنے پاس رکھی دواؤں کا پٹارہ کھولا اور دوا دیدی، دوا کھاکر مریض کو ری ایکشن ہوگیا، ہوسپٹل پہنچایا گیا وہاں پوچھا گیا کہ کون سی دوا کھائی تھی؟ کس نے کھلائی تھی، سچ بولنا ہی تھا شرطیہ (پولیس) پہنچ گئی، اپنے ساتھ لے گئی اور پھر سرکاری مہمان خانہ(جیل) پہنچادیا گیا۔ شرطیہ کا کہنا تھا کہ جب تمہارے پاس ڈگری نہیں ہے تو مریض کو دوا کیوں دی، دوسرے دوا کی تاریخ بھی اختتام پذیر ہوچکی تھی یعنی ایکسپائر ہوچکی تھی۔

بالکل یہی حال دوران سفر کھانے کا بھی ہے، کھانا بے شک آپ کے پاس ہے آپ کار ثواب سمجھ کر کھلانے کا ذوق اور نیت بھی رکھتے ہیں لیکن اجنبی انسان کو اگر آپ نے یہ کھانا کھلا دیا اور دوران سفر خدانخواستہ وہ بیمار ہوگیا تو اس کا مکمل شک آپ کے کھانے پر جائے گا، اب یہ بحث ہی فضول ہے کہ آپ کا کھانا مکمل نگرانی اور اعتماد کے ساتھ تیار ہوا تھا اب توآپ کی حالت "تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود" والا ہوجائے گا، کون آپ کی تحقیق و تفتیش اور ثبوت اکٹھے کرے گا کون آپ کا کیس لڑے گا، کون سفارشی بنے گا؟

میرے دوست مولانا عبدالکریم مظاہری قطر میں ملازم تھے، سردرد ہونے پر ایک صیدلیہ(میڈیکل اسٹور) سے بام خریدی، کمرے پہنچ کر بام اپنی پیشانی پر لگائی، تھوڑی ہی دیر میں ان کی پیشانی آگے کی طرف ڈھلک گئی، ناک پر بھی بام لگائی تھی ناک بہت سوج گئی، یہاں تک کہ پیشانی لٹک کر آنکھوں کے آگے پہنچ گئی۔ مولانا نے اپنے ساتھی کو فون کیا، ساتھی آتا تو یہ حالت دیکھ کر کفیل کو فون کیا، کفیل آیا اور فورا پوچھا کہ کیا لگایا ہے؟ مولانا نے بام کی طرف اشارہ کر دیا، اس کفیل نے بام پر تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا کہ اسکی تاریخ ختم ہوچکی ہے، کفیل نے بل مانگا اتفاق سے بل موجود تھا، کفیل نے پولیس بلائی، میڈیکل پہنچا اور میڈیکل پر تالا لگوا کر سرکاری مہر بھی لگوادی، کیونکہ اس نے ایکسپائر ڈیٹ دوا فروخت کرنے کا جرم کیا تھا۔ مولانا کا علاج چلا تقریبا چالیس ہزار قطری ریال علاج میں خرچ ہوئے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ ہوائی جہاز میں دونوں پائلٹوں کو ایک کھانا کبھی نہیں کھلایا جاتا ہے الگ الگ کھلایا جاتاہے تاکہ اگر کھانے کا ری ایکشن ہوتو ایک ہی بیمار پڑے اور دوسرا جہاز کو منزل تک لے جاسکے۔

ہمارے یہاں بہت سے لوگ کوئی بھی چیز لیتے وقت تاریخ نہیں پڑھتے، کمپنی کانام بھی نہیں دیکھتے، اور بے تکلف خود بھی استعمال کرتے ہیں اور بچوں کو بھی استعمال کراتے ہیں۔ نتیجہ آپ کو معلوم ہے۔

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں جگہ سرکاری قانون ہے کہ دوپہر کا کھانا رات میں یا رات کا کھانا دوپہر میں مہمانوں کو نہیں کھلا سکتے۔ وجہ یہی ہے کیا پتہ کون کس کو کب کا باسی کھانا کھلادے اور معتمر یا حاجی بیمار ہو جائے۔

ہر چیز ایک وقت تک لائق استعمال ہوتی ہے وقت گزرنے کے بعد وہ چیز ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہے۔

(۲۷/رجب المرجب ۱۴۴۵ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے