65a854e0fbfe1600199c5c82

تقریظات لکھنے سے پہلے



 سنو سنو! 
تقریظات لکھنے سے پہلے


(ناصرالدین مظاہری) 


کسی بھی نیک کام پرحوصلہ افزائی ہونی ہی چاہئے ،حوصلہ افزائی سے جہاں چھوٹوں کواعتمادحاصل ہوتاہے وہیں بڑوں کی عظمت میں بھی اضافہ ہوتاہے، ہمارے اسلاف واکابر بالخصوص ماضی قریب میں حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ، ادیب اریب حضرت مولاناوحیدالزماں کیرانویؒ، محقق ومحدث حضرت مولانا محمدیونس جونپوریؒ وغیرہ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ اِن حضرات نے اپنے چھوٹوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پرحوصلہ افزاء کلمات ارشاد فرماکرچھوٹوں کو آگے بڑھانے میں اہم کردار اداکیاہے۔


حوصلہ افزائی الگ چیزہے اوراصلاحی پہلو الگ چیزہے ،جن لوگوں کواخلاص کی دولت حاصل ہے ان کی نکیر و تنکیر چھوٹوں کے لئے ہمیشہ راہنما ثابت ہوئی ہے ، حضرت مولانا محمدزکریا مہاجرمدنیؒ کی پوری زندگی اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی میں گزری ہے ، اُن کی آپ بیتی اٹھاکردیکھئے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے وہ اپنے چھوٹوں کی مشغولیات اور خدمات سے آگاہ رہتے تھے اورکیسے کیسے بے کار سنگریزوں کوکارآمدہی نہیں موتی بنادیتے تھے۔


پہلے زمانے میں جس طرح اخبارات شائع ہوتے تھے اِس زمانے میں کتابیں اور رسالے چھپ رہے ہیں، کوئی بھی کتاب یاکسی بھی موضوع پر اگر ہمارے بڑوں کی شاندارکتاب موجود ہے تواب ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن کی چیزوں کوفروغ دیں ،اُن ہی کی کتابوں کوشائع کریں کیونکہ وہ خلوص اور اخلاص کے کوہ ہمالہ تھے ،ان کی نظریں،دوراندیشی اوربالغ نظری کاکوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ،لیکن افسوس تب ہوتاہے جب مارکیٹ میں ایک غیرمعیاری،گھٹیا،ناقص اور غیر ضروری کتاب منظرعام پرآجاتی ہے۔اس کاٹائٹل بھڑک دار، اس کاکاغذ شاندار، اس کاحسن لاجواب یعنی اس کاظاہربے مثال اوراس کاباطن کسی لائق نہیں۔


ایسی غیرمعیاری کتابوں پرمستندعلماء وبزرگوں کومحض نام یاموضوع کے خوبصورت ہونے کی بنیادپرتقریظات نہیں لکھنی چاہئیں اگر تقریظ لکھنی ضروری ہے توپھر پہلے اس کتاب کوبہ نظر غائر پڑھئے ،اس میں جوسقم اورکمی ہواس کودور کیجئے پھر اس پرمہرتصدیق ثبت فرمائیے۔بعض حضرات لکھ دیتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب پڑھی نہیں ہے لیکن کتاب کے نام سے اس کے مشمولات کااندازہ ہوتاہے ۔بڑی صفائی کے ساتھ عرض ہے کہ دورحاضرکی تجارتی کمپنیاں بھی تویہی کررہی ہیں وہ بھی کسی مشہور و معروف شخص کوروپے پیسے دے کراپنی تجارت کے لئے اشتہار حاصل کرلیتی ہیں اورفضول وبے کار،نقصان دِہ سامان فوراً فروخت ہونے لگتاہے ۔


آپ کی تصدیق وتائیدبھی اُس مال کی فروخت کے لئے حاصل کی جارہی ہے، آپ پرفرض ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دیں، یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ گواہی دینے یاتقریظ وتائید لکھنے سے پہلے خوب پڑھ لیں۔


حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی تحریر فرماتے ہیں:


" وقد یتحول من شہادۃ بالحق إلٰی سمسرۃ تجاریۃ أو قصیدۃ مدح فیفقد قیمتہ العملیۃ و الأدبیۃ و یتجرد من الحیاۃ و الروح۔‘‘


 ’’کبھی کبھار تقدیم و تقریظ کے ذریعے حق کی گواہی ادا کرنے کے بجائے تجارت اور باہمی لین دین کی شکل اختیار کی جاتی ہے ، چنانچہ کتاب کی علمی اور ادبی اہمیت گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور کتاب کی روح جاتی رہتی ہے۔ 


(ماہنامہ بینات جمادی الاولی 1442ھ مضمون مولانا محمد جمیل احمد) 


ایک دفعہ کانپورمیں ایک تاجردوران گفتگوکہنے لگاکہ میں حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندوی ؒکی تصدیق کی بنیادپرکسی بھی مدرسہ کوچندہ نہیں دیتا،میں نے حیرانگی سے پوچھاکیوں؟کیاوہ آپ کی نظروں میں قابل اعتبارنہیں ہیں؟ اس نے کہاکہ ایسانہیں ہے ،ان کی بزرگی میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ وہ اتنے شریف اورنیک ہیں کہ ہرکسی کو شریف اورنیک جانتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مومن جھوٹ نہیں بولتا لیکن اِس زمانے میں جھوٹ اورجھوٹوں کی کثرت ہوگئی ہے ،سچ اورسچائی عنقاہوتی جارہی ہے۔


مرشدالامت حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندویؒ کسی بھی کتاب پرتقریظ لکھنے سے پہلے کتاب کانسخہ منگواتے، اس کوپڑھتے،جب یقین ہوجاتاہے کہ کتاب کے تمام مشمولات معیاری اورمضامین بہترہیں تب کہیں جاکرتصدیق لکھتے تھے، اس میں کئی کئی مہینے لگ جاتے تھے ۔


آج ہمیں خودکومشتہر ہونے کاخبط سوارہوچکاہے ،اس لئے ہم سیاہ وسفید نہیں دیکھتے،تعلق نبھاتے ہیں،اپنا مفادپیش نظر ہوتاہے ،اسی لئے غیرمعیاری کتابوں کے ہجوم میں معیاری کتابیں دب کررہ گئی ہیں۔


مسندہندحضرت مولاناشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ،قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ،امام ربانی حضرت مولانارشید احمد گنگوہیؒ، محدث کبیر حضرت مولاناخلیل احمدانبہٹویؒ، حضرت مولانا حکیم الامت حضرت تھانویؒ، حکیم الاسلام حضرت قاری محمدطیب قاسمیؒ، حضرت مولانا ظفراحمد عثمانیؒ، حضرت مولانا حبیب احمد کیرانویؒ وغیرہم جوکچھ لکھتے تھے لوہا لاٹ لکھتے تھے ان کی کتابیں پڑھنے سے نہ صرف عقل وشعورمیں پختگی اور تصلب وتسلف کی دولت حاصل ہوتی ہے بلکہ انسان جادۂ اعتدال پرقائم رہتاہے ۔اُن کی کتابوں کوپڑھیں ،پڑھائیں اوراپنے فکروعقیدہ کومضبوط رکھیں۔


(۹/شعبان ۱۴۴۵ھ) 

٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے