65a854e0fbfe1600199c5c82

افطار، افطاری اور مفطرین

 


سنو سنو!! 
افطار، افطاری اور مفطرین


(ناصرالدین مظاہری) 


روزہ شروع ہوتے ہی لوگ افطاری کے سامان کی خریداری اور عورتیں افطاری کی تیاری میں ایسا مصروف ہو جاتی ہیں کہ لگتاہے روزہ اصل نہیں بلکہ افطاری اصل ہے، احادیث رسول، سیرت رسول اور حکایات صحابہ و اولیاء میں مجھے تو کہیں بھی وہ تکلف نظر نہیں آتا جو اب ہمارے زمانے میں ہوچلاہے۔بعض بعض مواقع پر میں نے خود بعض جگہوں پر درجنوں اشیاء گنی ہیں۔ 


حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کرانے کی ترغیب میں جن چیزوں کاتذکرہ فرمایا ہے اس میں کھجور، لسی اور پانی وغیرہ کا ذکر ہے خود سوچیں افطار سادگی کے ساتھ کی جاتی ہے اور افطار کرانے میں کچھ تکلف سے کام لیا جاتاہے لیکن اتنا تکلیف کہ تکلیف کے دائرہ میں آجائے یا اتنی اقسام کی انسان کی جیب ڈھیلی ہوجائے اس کی کوئی بھی فضیلت کہیں بھی وارد نہیں ہے۔ 

اسلام اعتدال پسند مذھب ہے یہاں جان جوکھم میں ڈالنے کی کوئی ترغیب نہیں دی گئی ہے۔ 


خادم رسول حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں کھا کر روزہ افطار کرتے، اگر تازہ نہ ملتی تو کھجوروں سے روزہ افطار کرتے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ پانی کے چند گھونٹ بھر لیتے تھے"


اسی طرح کسی موقع پر یہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور پانی وغیرہ سے روزہ افطار فرماتے تھے اور کسی ایسی چیز سے روزہ افطار نہ کرتے تھے جو آگ پر پکی ہوئی ہو۔ آگ پر پکی چیزیں عموما معدہ کے لئے بھاری اور بوجھل ہوتی ہیں، جگر کے لئے تکلیف دہ اور نظام انہضام کے لئے پریشان کن ہوتی ہیں، پوری، پکوڑے، پکوڑی، کچوری، سموسے، تکا، چکن روسٹ، مرغ مسلم یا کباب کے آئٹم یہ ساری چیزیں بوجھل ہیں، دیر میں ہضم ہوتی ہیں، ثقل اور دیر ہضم ہیں اسی لئے پورے دن سے خالی معدہ کے لئے آپ خود فیصلہ کیجیے کہ کتنی نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔ 

فریج کا ٹھنڈا پانی اور تمام تر مشروبات بھی جسم انسانی کے لئے نہایت نقصان دہ ہیں لیکن لوگوں کو وقتی چٹخارے اور زبان کی لذت کے آگے صحت کا بالکل دھیان نہیں رہتا ہے۔ 


افطار میں ہماری بے اعتدالیوں کا الگ ہی منظر ہوتاہے ہمارے ایک ہاتھ میں انڈا ہے ہمارے منہ میں کولڈرنک ہے، ہماری نظر شامی کباب پر ہے اور ہمارا ارادہ روسٹ مرغ کا ہے بریانی بھینس کی ہے ، تہاری بکرے کی ہے، ساری چیزیں ہم ڈکار کر سوچتے ہیں کہ روزہ کا حق ادا کردیا ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں نہ افطار میں محبوب ومحمود ہیں نہ سحر میں۔ 


حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری وغیرہم کے واقعات آپ بیتی میں لکھے ہوئے ہیں انھیں پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ ہستیاں انسان تھیں یا فرشتے تھے۔

 

لوگ مہمانوں کو افطار کرانے میں کتراتے ہیں حالانکہ افطار کرانے کا ثواب اتنا ہے جتنا روزہ کا ہے اس لئے آپ نے اگر کسی کو روزہ افطار کرادیا تو سمجھئے کہ گویا آپ نے ڈبل روزہ رکھ لیا۔ 


اعتدال ضروری ہے نہ اتنا کم کھائیں کہ چکر آئیں نہ اتنا زیادہ کھائیں کہ پورے دن کچی اور کھٹی ڈکاریں آئیں۔ معدہ آپ کا ہے جھیلنا بھی آپ کو ہے۔ 


(9/رمضان المبارک 1445ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے