65a854e0fbfe1600199c5c82

اللہ کے باغی مسلمان

 یوں تو یہ عبارت ٹی وی سے متعلق لکھی گئی ہے، چونکہ اس وقت ٹی وی کا فتنہ عام تھا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا۔


اس مضمون میں آپ ٹی بی کی جگہ "انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا" کے تناظر میں بھی دیکھیں، امید ہے کہ بات سمجھ آ جائے، ورنہ فتویٰ تو ظاہر پر دیا جاتا ہے ایک مفتی کا کام جائز یا نا جائز، حرام یا حلال کے مطابق فتویٰ دینا ہے، اس عبارت کو وہ ہی لوگ سمجھ پائیں گے جن کی نظر میں یہ سچ مچ فتنہ ہے۔ مضمون ملاحظہ کریں


اللہ کے باغی مسلمان 

╮•┅═ـ❁🏕❁ـ═┅•╭


ٹی بی 📺 سے متعلق بھی بعض ”بظاہر سمجھ دار“ قسم کے لوگ بھی یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں:

”اس میں نقصان تو واقعۃً ہے لیکن اگر دیکھنے والا احتیاط سے کام لے، گانے نہ سنے عورتوں کی تصویریں نہ دیکھے، اور بھی کسی قسم کا فحش پروگرام نہ دیکھے اور زیادہ دیر بھی نہ دیکھے، اپنی صحت کا خیال رکھے تو ان شرطوں سے دیکھنے میں کوئی مضایقہ نہیں، بلکہ فائدے ہیں، بہت سی معلومات ملتی ہیں“


ان لوگوں سے متعلق بظاہر ”سمجھ دار‘‘ کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے بباطن یہ بے سمجھ اور کور عقل ہیں، اگر واقعۃً سمجھ دار اور عاقل ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز آجاتے، اس کے لیے ایسے چور دروازے نہ کھولتے، ان کی اس لاحاصل تقریر کا خلاصہ یہ کہ ”ٹی بی‘‘ دیکھتے رہو مگر احتیاط سے، حالانکہ یہ سراسر غلط اور مہلک نظریہ ہے، خود مشاہدات اس کی تکذیب کر رہے ہیں، ہزاروں لاکھوں ’’ٹی وی پرستاروں“ میں بھی کوئی اس کی پابندی نہیں کرتا، بلکہ خود یہ لوگ بھی جو احتیاط کا درس دیتے ہیں ایسی احتیاط نہیں کرتے، اور کر بھی نہیں سکتے۔ آخر کریں گے بھی کیوں کر؟ مثلاً انہوں نے درس دے دے کر لوگوں کو قائل کر لیا کہ روزانہ ایک گھنٹہ سے زیادہ ٹی وی دیکھنا سخت نقصان دہ ہے لوگوں نے بھی ان سے اتفاق کرلیا اور احتیاط کا وعدہ کرلیا مگر اس کے بعد ہی ایک ٹی وی ڈرامہ شروع ہو گیا جو مسلسل تین گھنٹے چلتا ہے تو بتایئے:

”ان سے احتیاط کا وعدہ کرنے والوں میں کون سا احمق ہے جو درمیان سے ڈرامہ چھوڑ کر اٹھ جائے‘‘ یہ لوگ خود بھی اٹھنا گوارا نہ کریں گے، سو یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے:

”جس شخص کو بھی اس ٹی بی کی لت پڑگئی وہ جان لے کر ہی چھوڑے گی۔“

تجربہ بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ اس قسم کی حدود وقیود کی کوئی شخص بھی رعایت نہیں رکھتا، آپ نے کسی چیز کی اجازت دی مگر دس شرطوں کے ساتھ، تو عوام صرف اجازت کا لفظ یاد کر لیں گے بلکہ پلے باندھ لیں گے اور شرطیں سب کی سب اڑا دیں گے، کوئی ایک شخص بھی کسی ایک شرط کی بھی رعایت نہ کرے گا، اس لیے اگر اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنا ہے تو اس کی بغاوت سے باز آجائیے توبہ کر لیجیے اس قسم کی واہیات تقریر سے گمراہی ہی پھیلے گی نافرمانیوں میں کوئی کمی نہ آئے گی-


❁ایک مریدنی کا قصہ:❁

عوام کی حالت تو یہ ہے کہ ایک خاتون بیس سال سے مجھ سے بیعت تھیں، مگر جوں ہی کسی مولوی کی یہ بے ہودہ تقریر سنی شوہر کے سر ہوگئی کہ مجھے بھی ٹی وی خرید دو، اس نے بہت سمجھایا اس کے نقصان بتائے مگر نہیں مانیں، اسے یہ تقریر ایسی دل کو لگی کہ ٹی وی لے کر ہی چھوڑا۔ میں نے اس کی بیعت ختم کر دی۔ مگر پروا نہیں پیر ناراض ہو، شوہر روکے بلکہ اللہ بھی روٹھ جائے، سب کو چلتا کردو، شروع میں تو مولوی کی تقریر کا حوالہ کہ ان شرطوں سے ٹی وی دیکھنا جائز ہے مگر جب ٹی وی آگیا تو سب شرطیں رخصت!

کوئی مولوی ایسی بات کرے تو اس پر قطعاً کان نہ دھریے، کوئی عالم باعمل مستند مولوی تو ایسی بات کبھی نہ کرے گا کسی مولوی نما بہروپیے سے بھی دھوکا نہ کھایئے، جو لوگ اس قسم کی باتیں کر کے عوام کا دین خراب کرتے ہیں وہ سوچ لیں کتنا بڑا وبال اپنے سر لے رہے ہیں، لوگوں کا جس قدر دین خراب ہوگا، نمازیں برباد ہوں گی، وقت ضائع ہوگا، تصویر، گانا بجانا اور ٹی وی کے دوسرے گناہوں میں ابتلاء ہوگا، جتنے لوگوں کی صحت کا دیوالہ نکلے گا، اندھے ہوں گے، دماغ کی رگیں پھٹیں گی، پھر ان مریضوں سے یہ متعدی مرض جہاں جہاں تک نسل در نسل منتقل ہوگا، یہ گناہوں کے سارے انبار اس شخص کے سر بھی ڈال دیئے جائیں گے، جو ٹی وی سے متعلق اس قسم کی تقریر کر کے لوگوں کو اس گناہ کی دعوت دے رہا ہے۔


آخر میں پھر سن لیجیے کہ عوام اس قسم کی شرطوں کو خاطر میں نہیں لاتے آپ کسی چیز کی مشروط اجازت دیں، تاکید کے ساتھ دس شرطیں بیان کر دیں، دس چھوڑ کر سو شرطیں لگادیں مگر کوئی شخص بھی ان شرطوں کی رعایت نہ کرے گا، بس اتنا یاد رکھیں گے کہ فلاں مولوی صاحب نے اس کام کی اجازت دے دی ہے، اس ’’ٹی بی‘‘ کی بیماری سے خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، اس معاملہ میں ذرہ بھر لچک یا نرمی روا نہ رکھیں۔


📚خطبات الرشید ص۲۹۹ تا ۳۰۱📚

✍فقیہ العصر مفتئ اعظم حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ 

بہ شکریہ چینل تصوف کیا ہے 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے